مجھے یاد ہے جب میں نے آخری بار دل میں کہا کہ ’یہ دن تو بالکل مثالی ہے۔‘ اتنا بہترین کہ اگر بار بار دہرانا پڑے، جیسے فلم گراؤنڈ ہاگ ڈے میں ہوتا ہے، تو زندگی کے آخری لمحوں میں بھی کوئی افسوس نہ ہو۔
میں اُس وقت لاس اینجلس میں تھی اور فروری 2024 کا مہینہ تھا۔ میں صبح سویرے فٹنس کلاس میں گئی اور پھر دوپہر تک کام کیا جب کہ برطانیہ میں سب لوگ اپنے دن کا کام ختم کر کے لاگ آف ہو چکے تھے۔ اس کے بعد میں لائبریری گئی اور کچھ گھنٹے اپنی ذاتی دلچسپی کے موضوع پر تحقیق میں گزارے۔
اس کے بعد میں جلدی ہی رات کا کھانا کھانے چلی گئی جہاں میں نے فون ایک طرف رکھ دیا اور کیلیفورنیا کے ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے وقت گزارا جو ذاتی ٹرینرزاور کتوں کے ساتھ تھے۔
انہوں نے جاذب نظر اور آرام دہ لباس پہن رکھا تھا۔ دن کا اختتام میں نے اپنی دوست کے گھر ہنسی مذاق میں کیا۔ گذشتہ ایک سال میں کچھ دن اچھے گزرے، کچھ خوشگوار اور کچھ دلچسپ، لیکن کوئی بھی اس دن جیسا مکمل اور بے عیب محسوس نہیں ہوا۔
یہ اس لیے نہیں تھا کہ میں لندن سے دور ہونے کے باعث ’چھٹی والے موڈ‘ میں تھی، بلکہ اس لیے کہ اس دن کی ہر بات میں ایک توازن تھا، اگر تناسب کی نظر سے دیکھا جائے تو۔ میں نے اپنی جبلت کی پیروی کی، زندگی کا لطف بھی اٹھایا، اور وہ سب کچھ مکمل بھی کیا جو ضروری تھا۔
اسی مشاہدے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید ایک مثالی دن کے پیچھے کوئی خاص کیمیائی ترتیب ہوتی ہے اور اب یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے محققین نے واقعی ایسا ہی دریافت کیا ہے۔
سماجی سائنس دانوں نے وقت کے استعمال سے متعلق امریکی جائزے کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، جس میں شرکا نے یہ درج کیا تھا کہ وہ روزمرہ زندگی کی 100 مختلف سرگرمیوں پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔
ان سرگرمیوں میں ہر بڑی چیز شامل تھی۔ مثال کے طور پر فون کے ذریعے سوشل میڈیا پر موجود پریشان مواد دیکھنا، ورزش کرنا اور میل جول رکھنا۔
پھر محققین نے ان دنوں کا جائزہ لیا جنہیں شرکا نے ’عام دن سے بہتر‘ قرار دیا تھا، اور دیکھا کہ ان دنوں میں کن سرگرمیوں پر کتنا وقت صرف کیا گیا۔ یوں ایک اوسط انسان کے مثالی دن کا فارمولہ بن گیا۔
یہ اس مثالی دن کا خاکہ ہے۔ یعنی خاندان کے ساتھ چھ گھنٹے کا معیاری وقت، دوستوں کے ساتھ دو گھنٹے، سوا گھنٹہ میل جول صرف چھ گھنٹے کام، ساتھ میں 15 منٹ کا مختصر سفر، دو گھنٹے ورزش، اور زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ سکرین کے سامنے وقت گزارنا۔
اس فہرست میں جو واحد چیز مجھے کچھ عجیب لگتی ہے وہ ہے دو گھنٹے کی ورزش، جو اکثر لوگوں کے لیے کچھ زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن غالباً اس میں یہ بھی شامل ہو سکتا ہے کہ آپ دوستوں کے ساتھ پارک میں دو گھنٹے چہل قدمی کریں، یعنی مختلف سرگرمیوں کو آپس میں ملا دیا جائے۔
اور اگر اس مثالی دن کے فارمولے کو جاگنے کے عام دورانیے کے مطابق بنانا ہو، تو شائد بہت سی سرگرمیوں کو آپ کو آپس میں جوڑنا پڑے گا۔
عمومی طور پر یہ فارمولا بالکل منطقی لگتا ہے۔ لیکن اس پر عمل کرنا اس حقیقت پر منحصر ہے کہ ہمارے کام کے دن غیر معمولی حد تک طویل ہوں یعنی عموماً آٹھ یا نو گھنٹے، جو اس ’مثالی‘ چھ گھنٹے سے خاصے زیادہ ہیں۔
ذاتی طور پر میری طبیعت ایسی ہے کہ میں لگاتار چار یا پانچ گھنٹے پوری توجہ سے کام کر سکتی ہوں، اس کے بعد ذہن بالکل خالی سا ہو جاتا ہے، جیسے دماغ میں روئی بھر گئی ہو۔
پھر باقی دن کے کام کا وقت ایسی اہم سرگرمیوں میں گزرتا ہے جیسے فون پر سکرولنگ، مزید کافی پینا، یا دوسروں کی توجہ کام سے ہٹانا۔ اگر ہم کاروباری نہیں، تو یوں لگتا ہے کہ ایک کے بعد ایک مثالی دن گزار کر ایک مثالی زندگی تک پہنچنے کا خواب ان کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہے جن کے لیے ہم کام کرتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے اور ورزش کے لیے زیادہ وقت ہونا ظاہر ہے کہ بہت اہم ہے۔ میرے زیادہ تر اوسط یا خراب دن وہی ہوتے ہیں جب میں نے نہ ان چیزوں کے لیے وقت نکالا ہوتا ہے، نہ کوئی منصوبہ بنایا ہوتا ہے (یا دونوں کام)اور اگر آپ کا ارادہ ہے کہ آپ خاندان رکھیں، تو میرا خیال ہے کہ ہاں اس کے ساتھ چھ گھنٹے گزارنا واقعی اچھی بات ہے۔
لیکن چوں کہ بہت سے لوگ، جیسے میں، اپنے خاندانوں سے دور رہتے ہیں، اکیلے رہتے ہیں یا ان کے پاس کوئی خاندان نہیں، تو میری دلچسپی اس میں ہے کہ ہمارے لیے مثالی دن کیسا ہو، نہ کہ اس اوسط امریکی شہری کے لیے جن کے دو تین بچے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں تو وہ چھ گھنٹے اکیلے گزارنا چاہوں گی جیسے میں نے لاس اینجلس میں کیا، خود کو دریافت کرنے، کچھ نیا سیکھنے، کتابیں پڑھنے یا اپنے شوق پورے کرنے میں۔
آخرکار اس فارمولے سے جو بات ذہن میں آتی ہے وہ یہی پرانی کہاوتیں ہیں کہ ’ہر چیز میں اعتدال ضروری ہے‘ اور ’توازن ہی کیلد ہے۔‘
زندگی کے تمام عناصر کو اس فارمولے میں ان کی جائز جگہ دی گئی ہے۔ ہر عنصر کو اس کی افادیت کے لحاظ سے اہمیت دی گئی ہے۔
یہاں تک کہ وہ کام جو بوجھ محسوس ہوتے ہیں، مثال کے طور پر روٹی روزی کے کام کرنا انہیں بھی فرد کی زندگی کے مجموعی مقصد میں اہمیت دی گئی ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ ہم اپنے فطری توازن سے اتنے کٹے ہوئے ہیں کہ ہمیں یہ بھی بتانے کی ضرورت پڑ گئی ہے کہ دن بھر کن کاموں کے لیے کتنا وقت نکالنا چاہیے۔
حالاں کہ ہم پہلے ہی اپنی زندگیاں ایک ایسے سانچے میں گزار رہے ہیں جس میں روزانہ نو گھنٹے کام اور پانچ گھنٹے سکرین کے سامنے بیٹھنا شامل ہے۔ شاید ہمیں واقعی کسی نئے فارمولے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
© The Independent