برہمنوں کو بدنام کرنے کا الزام، بالی وڈ فلم ’پُھلے‘ کی ریلیز موخر

انڈیا کے سینسر بورڈ پر اونچی ذات کے گروہوں کے دباؤ میں ذات پات مخالف فلم ’پھولے‘ کی سنسر شپ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ یہ تاریخ مٹانے کا عمل ہے۔

ساوتری بائی فولے نے 1848 میں اپنے شوہر کے ساتھ انڈیا میں پہلا لڑکیوں کا سکول قائم کیا تھا (زی سٹوڈیوز)

بالی وڈ کی ایک فلم کی ریلیز مؤخر کر دی گئی ہے جس کی کہانی 19ویں صدی کے دو ذات پات مخالف سماجی اصلاح کاروں کی زندگی پر مبنی ہے۔ یہ فیصلہ اونچی ذات کے گروپوں کے احتجاج کے بعد کیا گیا جنہوں نے فلم پر ان کی برادری کو بدنام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

انڈیا کے فلم سرٹیفیکیشن بورڈ، سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی)، نے ہدایت کار اننت مہادیون کی فلم ’پُھلے‘ میں ذات پات سے متعلق حوالوں اور مناظر میں کئی ترامیم کا مطالبہ کیا ہے۔ اس فلم میں جوٹی راؤ اور ساوتری بائی پُھلے کی زندگی دکھائی گئی ہے۔

یہ فیصلہ مہاراشٹر کی متعدد تنظیموں کی جانب سے اعتراضات کے بعد کیا گیا، جنہوں نے الزام عائد کیا کہ فلم نے برہمن برادری کو بدنام کیا ہے۔

ساوتری بائی پُھلے انڈیا میں خواتین کے حقوق کی تحریک کی بانیوں میں شامل تھیں اور انہوں نے 1848 میں اپنے شوہر کے ساتھ انڈیا کا پہلا لڑکیوں کا سکول قائم کیا تھا۔

برہمن ہندو ذات پات کے نظام میں سب سے اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور مذہبی علم کے امین سمجھے جاتے ہیں۔

 دستیاب حالیہ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی اکثریت ہندو مذہب پر عمل کرتی ہے اور ذات پات کا نظام عمومی طور پر تسلیم شدہ ہے۔

 پُھلے جوڑے نے دلتوں کے لیے تعلیم اور مساوات کی جدوجہد کی، ان دلتوں کے لیے جنہیں ہندو ذات پات کے نظام کے تحت ’اچھوت‘ سمجھا جاتا تھا۔

فلم میں پرتیک گاندھی اور پترالیکھا نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ فلم کو ابتدائی طور پر سی بی ایف سی نے’یو‘ سرٹیفکیٹ کے ساتھ منظور کیا تھا (جو ہر عمر کے لیے موزوں ہوتا ہے) لیکن برہمن تنظیموں، جیسے اکھیل بھارتیہ برہمن سماج اور پرشورام آرتھک وکاس مہامندل کے دباؤ کے بعد بورڈ نے اب بڑے پیمانے پر ترامیم کا مطالبہ کیا ہے، جن میں ان اصطلاحات کو نکالنے کی ہدایت بھی شامل ہے جو خاص طور پر دلت برادریوں سے متعلق ہیں۔

دلت برادریوں کو انڈیا کے ذات پات کے نظام کے تحت سماجی دھارے سے باہر رکھا گیا اور تاریخی طور پر نظر انداز کیا گیا، اور جنہیں معاشرے میں سب سے حقیر اور بدنام کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

سی بی ایف سی نے فلم کے کچھ مکالمے اور مناظر کو ’نرم‘ کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔

فلم کی ریلیز پہلے 11 اپریل کو طے تھی، جو اب 25 اپریل کر دی گئی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ہدایت کار سی بی ایف سی کی تمام تجاویز کو مانیں گے یا نہیں، اور کیا ان تبدیلیوں سے فلم کا تاریخی سچ کمزور ہو گا۔

انڈپینڈنٹ نے ہدایت کار اننت مہادیون سے تبصرے کے لیے رابطہ کر رکھا ہے۔

بعض مورخین اور کارکنان نے سی بی ایف سی کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تاریخ مسخ کرنے اور دلتوں کے تجربات کو کم اہم بنانے کے مترادف ہے۔

مہادیون نے زور دیا کہ فلم تاریخی بنیادوں پر مبنی ہے اور اس کا کوئی خاص ایجنڈا نہیں۔

انہوں نے روزنامہ مڈ ڈے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ’مختلف برہمن تنظیموں کی طرف سے کئی خطوط اور نوٹس موصول ہوئے ہیں۔ ٹریلر کے اجرا کے بعد کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان شبہات کو دور کیا جائے تاکہ ناظرین کو فلم دیکھنے میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جب میں نے اکھیل بھارتیہ برہمن سماج کے نمائندوں سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ہم نے دکھایا ہے کہ کچھ برہمنوں نے جیوتی با پُھلے کو 20 سکول قائم کرنے میں مدد دی تھی، تو وہ خوش ہوئے۔ جب پُھلے نے ’ستیہ شودھک سماج‘ بنایا، تو یہی برہمن اس کے ستون تھے۔ میں خود سخت برہمن ہوں۔ میں اپنی برادری کو کیوں بدنام کروں گا؟ ہم نے صرف حقائق دکھائے ہیں۔ یہ کسی ایجنڈے پر مبنی فلم نہیں ہے۔‘

ستیہ شودھک سماج 1873 میں جوٹی راؤ پُھلے نے قائم کیا تھا جو کہ ایک اصلاحی تحریک تھی، جس نے ذات پات کے امتیاز کی مخالفت کی اور محروم طبقات کے لیے مساوات اور تعلیم کا مطالبہ کیا۔

 انڈپینڈنٹ نے سی بی ایف سی سے بھی رابطہ کیا ہے کہ وہ وضاحت دے کہ انہوں نے ذات سے متعلق مناظر اور مکالمے میں ترامیم کا فیصلہ کن بنیادوں پر کیا، اور آیا یہ فیصلہ بیرونی دباؤ کے تحت کیا گیا۔

2017 میں، نیشنل ایوارڈ یافتہ مراٹھی فلم ’دشکریا‘ کی ریلیز کو بھی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب برہمن تنظیم ’اکھیل بھارتیہ برہمن مہا سبھا‘ نے فلم میں برہمن برادری کی تصویر کشی پر اعتراض کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ فلم انہیں ’منفی انداز‘ میں پیش کرتی ہے۔

 مہاراشٹر میں بعض سینیما مالکان نے ممکنہ بدامنی کے خدشے کے باعث وقتی طور پر پیشگی بکنگ بند کر دی، حالانکہ یہ فلم پہلے ہی سنسر بورڈ سے منظوری حاصل کر چکی تھی اور مختلف فلمی میلوں میں دکھائی جا چکی تھی۔

فلم پُھلے کی ریلیز میں تاخیر اور اس پر سینسر کی پابندی نے مورخین اور سماجی کارکنوں کے درمیان دلتوں کی تاریخ کو مٹانے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ذات پات سے متعلق مخصوص حوالوں کو نکالنے سے نہ صرف تاریخی حقیقت کمزور ہوتی ہے بلکہ فلم کے بنیادی پیغام — ذات پات پر مبنی ناانصافی کا مقابلہ کرنے اور پُھلے جوڑے کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنے — کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

نیرج بنکر، ناٹنگھم ٹرنٹ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر، نے انڈین ایکسپریس میں لکھا:

’یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایک فلم جو ذات پات کے خلاف لڑنے والے جوڑے پر ہے، اسے اسی نظام کے تحفظ کے لیے سینسر کیا جا رہا ہے جس کے خلاف وہ کھڑے ہوئے تھے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’سی بی ایف سی جو کہ غیر جانبدار ادارہ ہونا چاہیے، عموماً برہمن یا سوارن نمائندوں کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں 80 فیصد سے زائد آبادی دلت یا دیگر چھوٹی ذاتوں طبقات پر مشتمل ہے، ان کے استحصال کی کہانی دیکھانا اتنا متنازع کیوں ہے؟‘

انڈیا میں دلت موضوعات پر مبنی فلموں کو اکثر سینسر بورڈ اور سماجی گروپوں کی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔

حالیہ مثال ’سنتوش‘ ہے جو ایک تنقیدی طور پر سراہی جانے والی ہندی فلم ہے، جسے برطانوی-انڈین فلمساز سندھیا سوری نے بنایا۔

اس فلم کو انڈین فلم سینسر بورڈ نے روک دیا کیونکہ اس میں پولیس کی عورت دشمنی، ذات پات پر مبنی امتیاز، اور اسلاموفوبیا کو دکھایا گیا تھا۔

حالانکہ اس فلم کو بین الاقوامی سطح پر ایوارڈز اور پذیرائی ملی — جن میں کین میں نمائش اور بافٹا کی نامزدگی شامل ہیں — لیکن انڈیا میں اسے ریلیز کرنے پر پابندی ہے کیونکہ سی بی ایف سی نے ایسی کٹوتیوں کا مطالبہ کیا جنہیں ہدایت کار نے ’ناممکن‘ قرار دیا۔

اسی طرح، ’شودر: دی رائزنگ‘ (2012) — جس کے ہدایت کار سنجیو جیسوال ہیں — نے ہندو ذات پات کے نظام کے تحت دلتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو موضوع بنایا، تو اس فلم کو بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

حیدرآباد کے پروفیسر، سماجی کارکن اور مصنف کنچا ایلیا شیفرڈ نے ویب سائٹ دی فیڈرل سے گفتگو میں کہا: ’سی بی ایف سی ایک ایسی فلم سے ذات پات سے متعلق حوالہ کیسے ہٹا سکتا ہے جس کی کہانی ہی پُھلے جوڑے کی ذات پات اور برہمنوں کے غیر انسانی طرزِ عمل کے خلاف جدوجہد پر مبنی ہے؟‘

مہاراشٹرا کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی سی بی ایف سی کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ فلم سے مناظر حذف کرنے کی سفارش کر کے دوہرا معیار اپنا رہا ہے اور تاریخ کے تلخ، ناپسندیدہ یا تکلیف دہ پہلوؤں کو چھپانے کی کی کوشش کر رہا ہے۔

مقامی سیاست دان جیانت پاٹل نے کہا: ’انڈیا کے سنسر بورڈ نے نہ تو ’دی کشمیر فائلز‘ اور نہ ہی ’دی کیرالہ سٹوری‘ جیسی پروپیگنڈہ فلموں کے کسی ایک منظر پر اعتراض کیا۔ لیکن 'پُھلے‘ جیسی تاریخ پر مبنی فلم پر فوری اعتراضات کر دیے۔ یہ بورڈ کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔‘

مقامی اپوزیشن لیڈر جیتندر آوہاد نے کہا: ’تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا، اس سے سیکھا جا سکتا ہے۔ مہاتما جیوتی راؤ پُھلے پر مبنی فلم میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ تاریخی سچ ہے — اور سچ کو جھٹلایا یا بدلا نہیں جا سکتا۔ اس ملک کے سماجی اصلاح کاروں میں مہاتما پُھلے اور ساوتری بائی پُھلے کے نام صفِ اول میں آتے ہیں۔ جو سچ ہے، وہ دیکھایا جانا چاہیے۔‘

انڈیا میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے صارفین نے بھی اس بات کی نشاندہی کی کہ کس طرح تاریخ پر مبنی فلموں سے متعلق رویے میں سنسر بورڈ اور موجودہ حکومت کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے۔

ایک صارف نے لکھا: ’مہاتما پُھلے نے اس ملک کے کروڑوں لوگوں کو آزادی دی۔ وہ انڈیا کے پہلے انقلابی تھے جنہوں نے ذات پات کے نظام کے خلاف لڑائی لڑی۔ اگر ’چھاوا‘ جیسی فلم ریلیز ہو سکتی ہے، حتیٰ کہ بی جے پی حکومت اسے پروموٹ بھی کر سکتی ہے، تو پھر ’پُھلے‘ کی فلم سے کیا مسئلہ ہے — جب کہ وہ بھی اسی خطے سے ہے؟‘

صارف جس فلم کا حوالہ دے رہا تھا وہ ’چھاوا‘ ہے، جو حالیہ تاریخی فلم ہے۔ دونوں فلمیں — چھاوا اور پُھلے — مہاراشٹرا کی شخصیات پر مبنی ہیں، مگر صارف نے نشاندہی کی کہ پُھلے کو سنسرشپ کا سامنا ہے جبکہ چھاوا کو بغیر کسی رکاوٹ کے ریلیز کیا گیا۔

اونیر، جو کہ ایک معروف بولی وڈ فلم ساز ہیں، اور دیگر کئی افراد نے پُھلے کی حمایت میں آواز بلند کی۔ انسٹاگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے اونیر نے لکھا:

’کتنی شرم کی بات ہے کہ سی بی ایف سی کو برہمن واد کے دباؤ کے آگے جھکنا پڑ رہا ہے۔۔۔ دلتوں کے جذبات یا تاریخی سچ کی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔ طاقت کے ڈھانچے کو سہارا دینے والی موجودہ صورت حال کو بغیر کسی چیلنج یا سوال کے برقرار رکھا جا رہا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم