اسلام آباد میں خوف ناک ژالہ باری نے بے شمار نقصان کیا اور فطرت گلو بٹ بن کے سب کی گاڑیوں کے شیشے توڑ گئی۔
ہمارے بچپن میں گاؤں کی بوڑھیاں جب لڑتی تھیں تو ایک کوسنا کثرت سے دیتی تھیں، ’نی تینو گڑاہ پئے۔‘ سننے والی بڑھیا کے تو جیسے تلوؤں سے لگ کے سر میں بجھتی تھی اور وہ رن پڑتا تھا کہ پوچھیے مت۔
اس وقت تک ’گڑاہ‘ یعنی اولے سے تعارف اتنا ہی تھا کہ اردو کے قاعدے میں ژ سے ژالہ باری پڑھا تھا اور تب یہی سوچا کرتے تھے کہ یہ کوئی لفظ ہے ہی نہیں فقط خانہ پری کے لیے لکھ دیا ہے۔
خیر اس وقت تو ’ژ‘ بھی خاصا مشکوک حرف لگا کرتا تھا۔ آخر ایک ایسی آواز کو مجسم کرنے اور حرف کی صورت قاعدے میں درج کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جو پتا نہیں کن الفاظ میں استعمال ہوتا تھا اور اگر ہوتا بھی تھا تو ہوا کرے، قاعدے میں لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ژالہ کیا تھا؟ یہ تب پتا چلا جب ایک بار بارش کے ساتھ برف کی ننھی ننھی گولیاں بھی آسمان سے برستی دیکھیں۔
یہ اتنے بے ضرر ژالے تھے کہ زمین تک پہنچتے پہنچتے ہی گھل کے تمام ہوئے۔ ایسے ہی جیسے ژ کا تلفظ زبان کی نوک پہ کہیں گھل جاتا ہے۔
ژالے اور گڑے کا خوف ہم نے اپنے بچپن میں کبھی نہ دیکھا۔ ذرا بڑے ہوئے تو محاوروں کی فہرست میں، ’سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘ سامنے آیا۔
یہ بالکل دلچسپ نہ لگا بلکہ اس محاورے کی منطق بھی سمجھ نہ آئی کہ گنجے سر پھرنے اور خاص کر برسات کے موسم میں باہر پھرنے کی ضرورت کیا تھی؟
گویا اولوں کا خوف ہمیں چھو کر بھی نہ گزرا۔ پھر ایک رات ایسی آئی کہ شدید بارش کے ساتھ آسمان سے جانے کیا آفت برسی کہ پو پھٹنے پہ نرمے کی قد آدم فصل، کترے ہوئے چارے کی طرح پڑی نظر آئی۔
پھول، ٹینڈے، پتیاں، ٹہنیاں جیسے کسی نے کچل کے، مسل کے اپنا غصہ نکال کے پرے پھینک دی تھیں۔یہ پہلی بار تھی کہ مجھے اندازہ ہوا، ژالہ باری ہو تی کیا ہے؟
یہ تو نباتات تھے، جانے حیوانات پہ کیا بیتی ہو گی؟ گھونسلوں اور چڑیوں اور چڑیوں کے انڈوں، بلوں میں رہنے والی مخلوقات اور کھیتوں میں چھدرے پودوں پہ رہنے والے، کھلے آسمان تلے آرام کرنے والے، ان سب پہ کیا گزری؟ اور اس گنجے کا کیا ہوا جس نے ابھی ابھی سر منڈایا تھا؟
خاصے خوف ناک سوال تھے۔ شام تک کئی جانوروں کے زخمی ہونے، پرندوں کے مرنے اور کچھ انسانوں کے زخمی ہونے، مکانوں کے گرنے کی خبریں مل گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ژالہ باری اتنی سادہ چیز نہیں تھی جتنی اردو کے قاعدے میں بنی تصویر میں نظر آتی تھی۔
پہلی ژالہ باری کے بعد میں ’ژ‘ کی اہمیت بخوبی جان گئی اور یہ بھی سمجھ گئی کہ اس حرف کو اس قدر اہتمام سے قاعدے میں شامل کیوں کیا گیا تھا۔
اس آفت کے بعد بارہا اولے پڑتے دیکھے، فرش، چھتیں، سڑکیں سفید ہو جاتی تھیں۔ پودے پتے کچلے جاتے تھے اور بس۔اسلام آباد میں پچھلے ہفتے ہونے والی ژالہ باری نے جو نقصان کیا، اس کے بارے میں کبھی غور نہیں کیا تھا۔
شہر پہ ہونے والی ژالہ باری کا خوف، نقصانات کی ایک فہرست ہے جسے بس دیکھا ہی کیجیے۔ ہمارے ایک پیارے دوست پی ٹی وی میں بیٹھے تھے، نئی گاڑی نکلوائی تھی، باہر نکلے تو نہ کوئی شیشہ سلامت تھا، نہ ڈینٹ سے کوئی جگہ خالی تھی۔ یہ ان کی پہلی گاڑی تھی۔
قدرتی آفات پہ صبر ہی کیا جا سکتا ہے، نہ کسی پہ الزام دھر سکتے ہیں نہ سدھار کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ہماری ہمدردیاں ان تمام لوگوں کے ساتھ جنہیں یہ ژالہ باری متاثر کر کے گزری۔ آئندہ کے لیے بس دعا ہی کر سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ٹنڈ کرانے سے گریز۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔