خبر آئی ہے کہ یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر کے شعبہ کیمسٹری نے طالب علموں کے لیے ڈریس کوڈ کی پابندی لازمی کر دی ہے۔
اس نوٹیفکیشن کے مطابق لڑکوں کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض، ڈریس پینٹ اور ڈریس شرٹ ہوگا جبکہ لڑکیوں کو اپنے لباس کے اوپر عبایا پہننا اور سر بھی ڈھانپنا ہو گا۔ اس ڈریس کوڈ کا اطلاق اس ہفتے شروع ہونے والے سیمسٹر سے کیا جائے گا۔ نافرمانی کی صورت میں کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی اور بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق یونیورسٹی کی رجسٹرار ڈاکٹر عائشہ سہیل نے اس نوٹس کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔
اس سے پہلے بھی بہت سی یونیورسٹیاں ایسے ہی نوٹیفکیشن جاری کر چکی ہیں۔ جیسے ہی سوشل میڈیا پر یہ خبر شیئر ہوتی ہے، ان پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ اکثر ادارے یو ٹرن لیتے ہوئے ان نوٹسز کو جھوٹا قرار دے دیتے ہیں۔ یونیورسٹی آف جموں و کشمیر اس لحاظ سے مبارک باد کی مستحق ہے کہ وہ اب تک اس نوٹس پر قائم ہے۔
اس موضوع پر اتنی بات ہو چکی ہے کہ مزید کچھ کہنا بے کار ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنی بحث کے باوجود ہر دوسرے مہینے کوئی نہ کوئی یونیورسٹی ایسا ہی کوئی نوٹیفکیشن جاری کر دیتی ہے۔ کہیں دو طلبہ کے ساتھ بیٹھنے پر پابندی لگائی جاتی ہے تو کہیں ہاسٹل میں دو بیڈز کے درمیان چھ انچ کا فاصلہ رکھنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ کسی یونیورسٹی میں ویلنٹائنز ڈے پر لڑکیوں کے درمیان چادریں تقسیم کی جاتی ہیں تو کسی سکول میں طالبات کو ٹوپی برقعے پہنائے جاتے ہیں۔ کراچی کی ایک بڑی یونیورسٹی کے ایک چوکیدار نے ایک خاتون لیکچرار کو ’نامناسب‘ لباس ہونے کی وجہ سے گیٹ پر ہی روک دیا اور اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر جگہ کے کچھ آداب ہوتے ہیں، ہم اسے مانتے ہیں لیکن پاکستان میں تعلیمی ادارے جس نیت کے ساتھ ڈریس کوڈ کو لازم قرار دیتے ہیں اس کا کم از کم آداب سے کوئی تعلق نہیں۔ اتنا تو ہر طالب علم جانتا ہے کہ اس نے کس قسم کا لباس پہن کر یونیورسٹی جانا ہے۔ اب آپ کو کسی کی جینز یا ٹاپ میں فحاشی نظر آ رہی ہو تو یہ آپ کا مسئلہ ہے، طالب علم کا نہیں۔ آپ فوراً یونیورسٹی سے رخصت لیں اور اپنا علاج کروائیں۔
ہماری یونیورسٹیوں میں پروفیسر چھوڑو کلرک تک بادشاہ ہے۔ طالب علموں کو ان کی کلاس کے متعلق معلومات وقت پر نہیں دی جاتیں۔ شیڈول میں کسی بھی ہونے والی تبدیلی کا طالب علموں کو عین وقت پر پتہ چلتا ہے۔ پروفیسر کلاس میں آ جائے تو آ جائے ورنہ اسے ڈھونڈنے نکلو تو خدا مل جائے پر وہ نہ ملے۔ کئی ادارے تو ایسے ہیں جو ڈگری اس کے مقررہ دورانیے میں پوری نہیں کروا پاتے، یوں طالب علموں کے ایک سے دو سال ضائع ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹی میں گزرے چار سالوں کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پروفیسر نے ملنے کا وقت دیا ہو اور وہ اُس مقررہ وقت پر خود بھی موجود ہوں۔
ان اداروں میں ہونے والی تحقیق کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی پروفیسر ہو جو کلاس روم میں طلبہ کے سامنے اپنی تحقیق پر پریزنٹیشن دے۔ کم از کم ہمارے کسی پروفیسر نے کبھی ایسی غلطی نہیں کی۔
حسرت ہی رہی کہ کبھی کسی پاکستانی یونیورسٹی سے کسی سائنس دان کو نکلتے دیکھیں یا کسی بین الاقوامی اخبار میں، چلیں کسی پاکستانی اخبار میں ہی ہماری کسی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے بارے میں پڑھیں یا کم از کم دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں دو چار پاکستانی یونیورسٹیوں کے نام دیکھیں۔ لیکن نہیں، ہماری یونیورسٹیوں کو طالب علموں کے لباس دیکھنے سے فرصت ملے تو وہ اپنے اس بنیادی کام پر بھی تھوڑا سا غور و فکر کر لیں جس کے لیے وہ قائم ہوئی تھیں۔
یونیورسٹی کا کام رٹے سسٹم سے نکل کر آئے طالب علم کو سوچنا سکھانا ہے۔ یہاں تو یونیورسٹی کی اپنی سوچ زمانہ جاہلیت میں رکی ہوئی ہے۔ طلبہ کو پڑھانا تو دور کی بات، ان کے تو سوچنے پر بھی پابندی ہے۔ جو طالب علم آواز اٹھاتا ہے وہ غائب کر دیا جاتا ہے۔ جو اپنا جمہوری حق سمجھتے ہوئے مارچ کرتے ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی جاتی ہے۔ مشال خان نے بھی اپنی یونیورسٹی میں ہونے والی بدعنوانیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی، اس کو چپ کروانے کے لیے توہین کے الزام کا جس طرح استعمال کیا گیا، وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔
گذشتہ ہفتے ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ میں شامل جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ان میں سے ایک مشال خان کے والد اقبال لالہ بھی ہیں۔ اس پوری صورت حال پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے۔
ایک نوبیل انعام پاکستان کے حصے آیا، اسے ہم نے اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ دوسرا نوبیل ملا تو اسے ملک کے خلاف سازش قرار دے دیا۔ وہ الگ بات ہے کہ ایک دنیا اس سازش کی عزت کرتی ہے اور پھر جسے اللہ عزت دے اسے ہم جیسوں کے چھوٹے موٹے تعریفی کلمات کی کیا ضرورت۔
اس ابتر حالت میں جب ہم ایسے نوٹیفکیشنز پڑھتے ہیں تو بے اختیار ہنس پڑتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں لو برقع پہن لیا، اب تو پڑھا دو۔