جموں و کشمیر کی کل آبادی کا 95 فیصد حصہ اس قدر ذہنی دباؤ کی زد میں آگیا ہے کہ وہ بات کرنے کی قوت کے ساتھ ساتھ قوت مزاحمت سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔
30 سال سے جاری پرتشدد حالات نے اب ان کے لیے پروقار اور پرامن زندگی گزارنے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں۔ اس وجہ سے اب نوجوان یا تو خودکشی کرتے ہیں یا بھارتی فوج کے سامنے فرضی بندوق بردار بن کر گولی کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سال رواں میں جہاں بھارتی فوج نے انکاؤنٹرز (مقابلوں) میں 223 نوجوانوں کو ہلاک کردیا، وہیں حالیہ دنوں میں درجن بھر سے زائد لڑکوں اور لڑکیوں کی خود کشی کرنے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
جموں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن فیاض چوہدری کہتے ہیں کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے محض پانچ اگست، 2019 کے فیصلے پر ہی اکتفا نہیں کیا جب اس نے کشمیر کی شناخت، پرچم اور آئینی حیثیت کو ختم کیا بلکہ روز روز نئے قوانین لاگو کر کے مسلم آبادی کی ’نسل کشی‘ کی ایسی دوڑ لگائی ہے کہ اگلے 10 برسوں میں محال ہی کوئی ایسا شہری نظر آئے گا جو خود کو کشمیری مسلمان سمجھے گا یا خود کو مسلمان کہنے کی جرت کرے گا۔ ان ہی خدشات کے پیش نظر ہمارے بچے اپنی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔‘
مارچ میں ڈومیسائل قانون لاگو کرنے کے بعد مشرقی پاکستان سے آنے والے ہندوؤں، نیپال کے گورکھا اور والمیکی کہلانے والے شرنارتھیوں کو کشمیر میں بسایا جا رہا ہے۔ ان کی تعداد سرسری اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔
سن نوے کی شورش کے دوران تقریباً ایک لاکھ کشمیری پنڈت نقل مکانی کر کے باہر چلے گئے تھے، جو بےشک واپس آنے کا حق رکھتے ہیں مگر ان کی بعض تنظیمیں سات لاکھ سے زائد پناہ گزین پنڈت خاندانوں کی نقل مکانی کی تعداد بتا رہی ہیں۔ وہ کشمیر میں محفوظ مقامات پر اپنی بستی کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں جو تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی کا ’اسرائیلی فارمولہ‘ اپنانے کا پروگرام ہے۔
دوسری ریاستوں کے بچے اگر سات سال بحیثیت طلبا کشمیری سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم رہے ہوں گے تو نئے قانون کے تحت خود بخود کشمیر کے رہائشی کہلائیں گے۔ جس نے ملازمت کے سلسلے میں 10 سال تک کشمیر میں قیام کیا ہوگا، جن میں زیادہ تر پولیس اور انتظامیہ کے افسر ہیں انہیں رہائشی سند حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ان کی تعداد بھی تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
بیرونی مزدور طبقے کی تعداد سے پہلے میں یہ بات گوش گزار کرنا چاہتی ہوں کہ کشمیریوں کا بڑا طبقہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کا عادی نہیں رہا۔ وہ بیرونی مزدوروں خاص طور پر بہاری اور بنگالی مزدوروں پر تکیہ کرتے ہیں۔ یہ بات عام ہے کہ بھارتی مزدوروں کا دبئی کشمیر ہے جو گھریلو کام سے لے کر کاشت کاری اور کارخانوں میں برسہا برس سے موجود ہیں اور باقی ریاستوں کے مقابلے میں اچھی اجرت حاصل کرتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں روزانہ یومیہ اجرت پر 50 ہزار سے زائد مزدوروں کی ضرورت رہتی ہے جن میں ایک فیصد سے کم مقامی مزدور ہوں گے۔ کارخانوں میں ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جس پر کسی بھی مقامی حکومت نے توجہ نہیں دی اور جس کی وجہ سے بیشتر کارخانے بند ہوجاتے ہیں جب پر آشوب حالات میں باہر کے ہنرمند مزدور واپس چلے جاتے ہیں۔
2016 کی شورش کے دوران سب سے بڑے انڈسٹریل سٹیٹ لاسی پورہ کے 40 بڑے کولڈ سٹور اسی وجہ سے بند پڑے رہے کیونکہ بیشتر کشمیری نہ خود سیکھتے ہیں اور نہ اپنے کارخانے چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایسے مزدوروں اور ملازمین کی تعداد تقریباً 10 ہزار ہے جو کئی برسوں سے کشمیر میں مقیم ہیں اور کشمیر کی پیداواری صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہیں۔
شیخ عبداللہ نے ستر کی دہائی میں اندرا عبداللہ معاہدے کے ساتھ ہی سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ہزاروں تعلیمی اداروں پر پابندیاں عائد کروا دی تھی جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مساجد کی دیکھ ریکھ بھی سکھائی جاتی تھی۔ ان سے فارغ التحصیل طلبا امامت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔
سن 80 کے بعد کشمیر کی ہزاروں مساجد میں اتر پردیش، بنگال اور بہار کے مولویوں کی کثیر تعداد امامت پر مامور ہوتی گئی اور بعض نے یہاں پر اپنے گھر بھی بسا لیے۔ بعض مساجد میں جہاں ناخواندہ نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے امام صاحب کی تقریر اردو یا عربی میں ہوتی ہے۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی بات کتنوں کے پلے پڑتی ہوگی۔ یقین جانیے اس جانب کشمیریوں نے توجہ دینے کی کبھی زحمت بھی نہیں کی۔
میرے والد صاحب ایک قصہ سناتے تھے جب ڈاؤن ٹاؤن میں ان کی مسجد میں اتر پردیش سے آئے ہوئے ایک مولوی نماز پڑھاتے تھے جو بعد میں ایک ہندو تنظیم کے سرغنہ نکلے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان دنوں ایک تو کرونا وائرس نے سب کو بےحال کر چھوڑا ہے دوسرا اب ہزاروں کی تعداد میں دوسری ریاستوں کے باشندوں کو کشمیر لایا جا رہا ہے جو بقول صحافیوں کے آر ایس ایس کے سرکردہ کارکنان ہیں۔ ان کی ٹرانسپورٹ سے لے کر کھانے پینے اور رہائش گاہ کا انتظام حکومت کے ذمے ہے۔ چند روز پہلے صرف ضلع بڈگام میں 15 ہزار مزدور پہنچے ہیں جن میں درجنوں کو کرونا وائرس میں مبتلا پایا گیا۔
حکومت نے اس سال سات لاکھ امر ناتھ یاتریوں کو کشمیر لانے کا اعلان کیا تھا جن میں بیشتر ہندوتوا کے کارکنان ہوتے ہیں اور جن کے لیے مقامی سڑکیں اور ٹریفک کو تین ماہ تک بند کیا جاتا ہے۔ کرونا کے باعث اس یاترا کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور کشمیریوں نے اس پر راحت سی محسوس کی ہے۔
10 لاکھ سے زائد بھارتی فوج پہلے ہی کشمیر کے چپے چپے پر موجود ہے اور مقامی لوگوں کو ہراساں و پریشان کرنے کا انہیں ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ اس سب کا حساب کر کے خود اندازہ لگائیں کہ ان سب کے ہوتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی آبادی 10 برس میں کتنی رہ جائے گی؟ صفحہ ہستی پر سے ان کو مٹانے کا یہ کارگر فارمولہ نہیں ہے کیا؟
اگر اب کشمیریوں کی خودکشی کرنے، فرضی بندوق بردار بننے یا ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھنے کی خبروں سے مقامی اخبارات بھرے پڑے رہتے ہیں تو کشمیریوں کی جاری خاموش مزاحمت کی خبروں کو کہاں جگہ ملے گی جب میڈیا کے حلق میں بندوق کی نالی پھنسا کے رکھی گئی ہے۔