2025 کا سب سے بڑا فیشن رجحان ’بال‘ ہیں

بالوں کا ہر طرف دکھائی دینا ایسے وقت  ہو رہا ہے جب پرتعیش مارکیٹ کے سامان کی فروخت میں کمی آ چکی ہے، اور 2025 میں ممکنہ بہتری کی امیدوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حالیہ لگائے گئے ٹیرف متاثر کر رہے ہیں۔

3 مارچ 2025 کو لی گئی اس تصویر میں ایک افغان خاتون ہیئر ڈریسر ایک خاتون کے بالوں میں کنگھی کر رہی ہیں۔ 2025 کے ایوارڈ سیزن کے سب سے یادگار لباسوں میں سے ایک جولیا فاکس کا لباس تھا جس میں ترکی کی ڈیزائنر دلارا فندیک اوغلو کا شفاف گوتھک گاؤن پہنا جو بالوں سے بنا ہوا تھا (کلیئر گوونن / اے ایف پی)

کیا آپ مکمل طور پر انسانی بالوں سے بنی ہوئی چوٹی دار سوٹ ٹائی لگائیں گے؟ یا ایسا بیگ اٹھائیں گی جو لمبے سنہرے بالوں سے ڈھکا ہو؟ یا ایسا زیر جامہ خریدیں گے جو گھنے جسمانی بالوں جیسا دکھائی دے؟ غالباً یہ آپ کی موسم بہار کی فیشن کی ضروریات میں شامل نہیں ہوگا۔ لیکن یہی وہ ڈیزائن ہیں جو حال ہی میں اونچے درجے کے فیشن کے ماہرین، شیاپارلی کے ڈینیئل روزبیری، مارنی کے فرانچیسکو رسو، اور سابق میسون مارجیلا کے جون گلیانو نے پیش کیے۔

فیشن دن بہ دن بالوں سے مزید بھرا ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آئرلینڈ کے ڈیزائنر سیمون روشا نے ژاں پال گوتیے کے لیے اپنے کلیکشن میں لمبے بالوں کی لٹیں ’بالکل ویسی جیسے باتھ روم کے فرش پر بن جاتی ہیں) کو موڑ کر بو کی شکل کی ہلنے والی بالیاں بنا دیں۔ اور 2025 کے ایوارڈ سیزن کے سب سے یادگار لباسوں میں سے ایک تھا جولیا فاکس کا، جس نے وانیٹی فیئر آسکرز میں ترکی کی ڈیزائنر دلارا فندیک اوغلو کا شفاف گوتھک گاؤن پہنا۔ بالوں کی لٹیں ان کے جسم پر ایسے رینگ رہی تھیں جیسے بوتی چیلی کی مشہور پینٹنگ برتھ آف وینس زندہ ہو گئی ہو۔

فینڈی سے لے کر کلوئے تک، اس سیزن میں تقریباً ہر برانڈ نے جانوروں کی کھالوں سے کام لینے کی کوشش کی اور اسے کو کبھی نرم کالر اور کبھی جھالر دار جوتوں کی شکل میں دوبارہ تخلیق کیا۔ 

جنریشن زی میں جیسے ہی یہ رجحان مقبول ہوا، انہوں ے فوراً پرانے وقت اور نقلی فر والے لباسوں پر ہاتھ صاف کر لیا۔ جہاں جانوروں کی کھال، چاہے اصلی ہو یا نقلی، تجارتی سطح پر کامیابی سے جگہ بنا چکی، وہیں انسانی بال (یا ان جیسے نظر آنے والے بال) زیادہ غیر یقینی رجحان ہیں۔ ایسا رجحان جو فیشن شوز کی ریم پر تو دکھائی دے سکتا ہے، مگر سڑک پر نہیں۔

’کیا یہ واقعی کوئی ایسی چیز ہے جو لوگ روزمرہ زندگی میں پہنیں گے؟ کیا لوگ اس رجحان کو آسانی سے اپنا سکیں گے؟ یہی وہ سوالات ہیں۔‘ جو ٹک ٹاک پر@flotrends  کی شناخت سے موجود ٹرینڈ ریسرچر فلو پالمر نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کیے۔
 ’یہی بات وہ اونچے درجے کے فیشن انفلوئنسرز بھی کر رہے ہیں جو اس رجحان کی قیادت کر رہے ہیں اور اس کا تجارتی اثر بھی پڑ رہا ہے۔‘

بالوں کا ہر طرف دکھائی دینا ایسے وقت  ہو رہا ہے جب پرتعیش مارکیٹ کے سامان کی فروخت میں کمی آ چکی ہے، اور 2025 میں ممکنہ بہتری کی امیدوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حالیہ لگائے گئے ٹیرف متاثر کر رہے ہیں۔

 فلو کے مطابق، کوئی بھی تجارتی رجحان تبھی کامیاب ہوتا ہے جب وہ عملی ہو اور عام لوگوں کے لیے قابلِ رسائی ہو۔ چاہے وہ کسی مقبول ترین ڈیزائنر کے کلیکشن میں دکھایا جائے یا ہالی وڈ کی کسی بڑی ’فیشن ایبل خاتون‘ میں نظر آئے، لیکن تب تک وہ مکمل رجحان نہیں بنتا جب تک عام صارف کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔

ترتعیشن فیشن سے متعلق کنٹنٹ کریئٹرز لارا ویولیتا اور ازی پوپی نے اپنے سوشل میڈیا پیجز پر پر بالوں سے بنی ہوئی ہوپ بالیوں اور ملبوست کی تشہیر کی جب کہ فیشن کی مبصر اور پیش گوئی کرنے والی مینڈی لی (@oldloserinbrooklyn)، نے حال ہی میں ایک ٹک ٹاک ویڈیو میں پیش گوئی کی کہ یہ ڈیزائن تکنیک آنے والے سیزنز میں بھی فیشن انڈسٹری پر چھائی رہے گی۔

ہنرمندوں نے بالوں سے چیزیں بنانا قدیم مصر کے دور سے ہی شروع کر دیا تھا۔ تاہم وکٹورین دور (تقریباً 1837 سے 1901 تک) وہ زمانہ تھا جب یہ رجحان خوب مقبول ہوا اور ہنرمندوں نے بالوں سے زیورات، وگ اور ذاتی استعمال کی یادگاریں بنائیں، جو اس قدرتی مٹیریل کی یاددہانی اور جذبات سے جڑی کشش کو ظاہر کرتا تھا۔

فلو نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ نسوانیت کا رومانوی تصور تھا۔‘ 

یہی تصور آج کے کئی سٹائل رجحانات کا محرک بن چکا ہے۔ مثال کے طور پر چیمینا کمالی کے بوہیمین انداز سے متاثرہ کلوئے کلیکشنز، جو جھالر دار اور لہرانے والے ملبوسات ان میں سے ایک ہیں۔ ایسا اس وقت ہو رہا ہے کہ جب روایتی بیویوں کا کلچر اور قدامت پسند سیاست کی واپسی معاشرے پر حاوی ہو چکی ہے۔

فلو نے وضاحت کی کہ ’یقیناً یہ ان بے حد نسوانی، خواب ناک، اور کسی حد تک جادوئی رجحانات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو آج کل تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔‘ اس سے پہلے انہوں نے کہا کہ ان میں سے کچھ فیشن رجحانات ریم سے آگے نہیں بڑھ رہے۔
جاویرا شوآئے ڈیکاپ، جو حال ہی میں لندن کے رائل کالج آف آرٹ سے گریجویٹ ہوئیں، نے اپنے حتمی پروجیکٹ کلیکشن کا آدھا حصہ انسانی بالوں سے تیار کیا۔

تاہم، پیشہ ورانہ کریئر کے آغاز کے بعد ڈیکاپ نے بالوں سے بنے ملبوسات کی تیاری اور پیداوار نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈیکاپ نے اعتراف کیا کہ ’میں ابھی اس مقام پر نہیں ہوں جہاں میں اس مواد کو مارکیٹ کے لیے اخلاقی یا پائیدار طریقے سے استعمال کر سکوں۔ یعنی، سوال یہ ہے کہ آپ تمام بال کہاں سے حاصل کر رہے ہیں اور کیا وہ لوگ اس پر راضی بھی ہیں؟‘

اپنے گریجویشن کلیکشن کے لیے ڈیکاپ نے لندن کے ایک سیلون سے عطیہ شدہ بال اور وگ شاپس سے بالوں کی لٹیں حاصل کیں لیکن یہ وہ چیز نہیں جسے آسانی سے بڑے پیمانے پر تیار کیا جا سکے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ بطور مواد، بالوں میں زبردست حرکت اور روانی ہوتی ہے، اس لیے وہ اب ایسے خاص ڈیزائنز پر کام کر رہی ہیں جو اسی پہلو کو اجاگر کریں۔

انہوں نے کہا: ’میں جسمانی پرفارمنس کرنے والے فن کاروں کے ساتھ ملبوسات پر کام کر رہی ہوں۔‘ 

خواہ  یہ شوخ و شنگ ملبوسات زیادہ تر ریم یا سٹیج پر توجہ حاصل کرنے والے لمحات کے لیے مخصوص رہیں، ان کا تصورِ تخلیق پھر بھی وسیع اثر ڈال سکتا ہے، کیوں کہ بالوں سے جڑے رجحانات اکثر تازہ سماجی تحریکوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

خواتین کی آزادی کی تحریک کی دوسری لہر کے دوران یعنی 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں، بہت سی خواتین نے اپنے جسم کے بال بڑھائے تاکہ پدرسری نظام کے خلاف مزاحمت اور خواتین کی خودمختاری کا اظہار کر سکیں۔

آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت جسمانی خودمختاری کو خطرات لاحق ہیں، اور خواتین اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔

اگرچہ اس وقت ایسی خواتین نمایاں طور پر سامنے نہیں آ رہیں جو دوسروں کو شیو یا ویکسنگ سے باز رہنے کی ترغیب دے رہی ہوں تاکہ موجودہ صنفی سیاست کی مخالفت کی جا سکے، پھر بھی وہ روایتی خوبصورتی کے معیارات اور جسم کے بالوں سے متعلق رواجوں کی کہانی کو بدل رہی ہیں۔ فیشن کے طور پر بالوں سے آگے بڑھتے ہوئے، اب بات بال کاٹنے یا (نہ کاٹنے) کے فیصلے تک پہنچ چکی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سٹائل انفلوئنسر سیئرا اوڈے جانسن (@cierraoday) نے اپنے مکمل برانڈ کی بنیاد اپنی ایک دوسرے سے جڑی بھنووں پر رکھی، لیکن جو چیز ایک وقت میں ان کی پہچان سمجھی جاتی تھی، اب وہ ان کی شخصیت کا بس ایک عام سا حصہ بن چکی ہے۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو جسمانی بال کاٹے یا نہ کاٹے، یا انہیں فیشن کے طور پر استعمال کرے۔ لیکن یہ فیصلہ کسی فیشن رجحان کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ صرف اس لیے کہ ریم پر کسی خاص انداز کا رجحان چل رہا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کو اسی میں ڈھل جانا چاہیے۔

اوڈے کے خیال میں تو ہیئر ڈیزائنز بہر حال ’فیشن سکول کے آرٹ پروجیکٹس‘  معلوم ہوتے ہیں۔

دوسری جانب، ایک آن لائن سوشل کمیونٹی جسے #Bushtok  کے نام سے جانا جاتا ہے، جسم کے بالوں کی آزادی کے تصور کو سیاسی اور فیشن اظہار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

گیبریلا سکارینجے  جو تمام جسامت کے لیے موزوں زیر جامے تیرانی بنانے والےچیری نامی  برانڈ کی بانی اور #Bushtok کی نمایاں رہنما ہیں، نے اس تحریک کو ’جزوی طور پر جشن اور جزوی طور پر احتجاج‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا: ’یہ زیر ناف بالوں کی جرأت مندانہ واپسی ہے اور خوبصورتی کے ان سخت پدرسری معیارات کے خلاف ردعمل ہے جو ہمیں بتاتے آئے ہیں کہ  ہمیں بالوں سے پاک، مکمل گلابی، بالوں کے خوبصورت انداز میں بنا یا ’صاف‘ ہونے کی ضرورت ہے۔

چیری نے #Bushtok  کو فیشن کے دیگر رجحانات سے بھی جوڑا۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’خاص طور پر ’صاف ستھری لڑکی کی خوبصورتی‘ کے تصور کے پیش نظر بہت سی خواتین نسوانیت کے مسلسل اظہاراور صفائی ستھرائی کی مشق سے تھکن محسوس کرتی ہیں۔‘

’ بہت سی خواتین اپنے قدرتی جسم کی طرف واپسی کی خواہش رکھتی ہیں، اور یہ محسوس کر رہی ہیں کہ جب وہ ایسا کرتی ہیں تو خود کو پہلے سے کہیں زیادہ نسوانی محسوس کرتی ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین