پاکستان کو امریکہ کے ساتھ سرمایہ کاری کے نئے باب کی امید

کئی امریکی کمپنیوں نے معدنیات کے ابھرتے ہوئے شعبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے تاکہ ملک کی وسیع معدنی صلاحیت کو بروئے کار لایا جا سکے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں، الیگزینڈر ایکرمین، انرجی بزنس ڈائریکٹر، مشرق وسطیٰ نے اپنی ٹیم کے ساتھ اسلام آباد، پاکستان میں پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں شرکت کی (ویب سائٹ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم، 10 مارچ 2025)

اسلام آباد میں ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار کے حالیہ دورے نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے سے جمی ہوئی برف پگھلنے کی امید پیدا کی ہے۔ جنوبی و وسطی ایشیا کے لیے قائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ایرک میئر نے امریکی وفد کی قیادت کی جو پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں شرکت کے لیے آیا تھا۔

اپنے دو روزہ قیام کے دوران انہوں نے پاکستان کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ یہ اس سال صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلا اعلیٰ سطح کا باضابطہ رابطہ تھا۔

بات چیت کا مرکزی نقطہ امریکی کاروباری مفادات کو فروغ دینا اور اقتصادی تعلقات کو گہرا کرنا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔

امریکہ نے خاص طور پر اہم معدنیات میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے معدنی ذخائر میں سے کچھ موجود ہیں اور حکومت اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی خواہاں ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد میں منعقدہ انویسٹمنٹ کانفرنس ایک ایسا پلیٹ فارم بنی جہاں امریکہ اور عالمی سٹیک ہولڈرز نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لیا۔

کئی امریکی کمپنیوں نے معدنیات کے ابھرتے ہوئے شعبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے تاکہ ملک کی وسیع معدنی صلاحیت کو بروئے کار لایا جا سکے۔ اس دو روزہ منرل سمٹ میں 300 غیر ملکی مندوبین کی شرکت نے پاکستان کے معدنی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی امید بڑھا دی ہے، جس میں مالی وسائل اور ٹیکنالوجی تک رسائی کی کمی کی وجہ سے ابھی تک ترقی نہیں ہو سکی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے معدنی وسائل کو قومی معیشت کی بحالی کی کلید قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ملک کی معدنی دولت ’کھربوں ڈالرز‘ کی مالیت رکھتی ہے جو معیشت کو بار بار کے عالمی بیل آؤٹس پر انحصار سے نجات دلا سکتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہائیڈرو کاربن اور سونے-تانبے کے نمایاں ذخائر مل چکے ہیں۔

پاکستانی حکام کو خاص طور پر ریئر ارتھ معدنیات میں امریکی سرمایہ کاری کی امید ہے۔ یہ سرمایہ کاری واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو محض سکیورٹی تعاون سے آگے بڑھانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ تاہم غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے سے قبل کئی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔

اگرچہ امریکی دلچسپی واضح ہے، پاکستان کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے امن و امان کی صورت حال بہتر بنانا ہوگی۔ زیادہ تر غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں واقع ہیں، جہاں شدت پسندی اور علیحدگی پسندی کا زور بڑھ رہا ہے۔

اگرچہ پاکستانی حکام نے سرمایہ کاروں کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم خاص طور پر بلوچستان میں حالیہ شدت پسند حملوں نے تشویش بڑھا دی ہے۔

سرمایہ کاروں کے خدشات دور کرنے کے لیے مزید عملی اقدامات ضروری ہیں۔

سرمایہ کار پاکستانی حکومت کے خوش کن اندازوں پر نہیں بلکہ اقتصادی پائیداری کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔

علاوہ ازیں، پاکستان کو پالیسی میں تسلسل کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔

امریکی سینیئر اہلکار کا یہ دورہ ایسے وقت ہوا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے درآمد ہونے والی اشیا پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے، جو درجنوں ممالک پر لگنے والے نئے محصولات کا حصہ ہے۔ پاکستان، امریکی مصنوعات اور خدمات پر 58 فیصد ڈیوٹیز وصول کرتا ہے۔

پاکستان کی امریکہ کو برآمدات سالانہ چھ ارب ڈالر ہیں، جو ملکی کل برآمدات کا 18 فیصد بنتی ہیں۔ ان میں 75 سے 80 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں۔ امریکی اقدام نے پاکستانی برآمدات پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے شدید تشویش پیدا کی ہے، لیکن بعض ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس میں طویل مدتی مواقع بھی پوشیدہ ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے چین، بنگلہ دیش، ویتنام اور کمبوڈیا جیسے ٹیکسٹائل مصنوعات کے بڑے حریفوں پر زیادہ ٹیرف عائد کرنے سے پاکستان کے لیے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

دیگر برآمدی اشیا میں چمڑے کی مصنوعات، سرجیکل آلات، چاول، سیمنٹ، سٹیل مصنوعات اور نمک شامل ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں امریکہ کو آئی ٹی مصنوعات کی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد واشنگٹن جا رہا ہے تاکہ تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا سکے اور امریکی ٹیرف پر بات چیت کی جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد نے عندیہ دیا ہے کہ وہ امریکی مصنوعات پر ڈیوٹی کا ازسرِ نو جائزہ لینے اور درآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ سے کوئی رعایت حاصل کرنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہو گا۔

تعلقات منجمد ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے سکیورٹی اداروں کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون جاری رہا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد نے ایک داعش رہنما کی گرفتاری میں امریکہ کی مدد کی ہے، جو اگست 2021 میں کابل ایئرپورٹ حملے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ تھا، اس حملے میں درجنوں امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

صدر ٹرمپ نے فروری میں کانگریس سے خطاب میں پاکستانی حکومت کی اس تعاون کی تعریف کی۔

انسداد دہشت گردی میں تعاون سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں کچھ حد تک بہتری ضرور آئی ہے، لیکن ابھی تک ان تعلقات کے سکیورٹی تعاون سے آگے بڑھنے کے آثار نظر نہیں آتے۔

اگرچہ حالیہ اعلیٰ سطحی امریکی دورے نے کچھ امیدیں ضرور پیدا کی ہیں، لیکن پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔ امریکہ نے اہم معدنیات میں سرمایہ کاری میں دلچسپی تو دکھائی ہے، لیکن کوئی باضابطہ وعدہ نہیں کیا۔ تعلقات میں کچھ بہتری کے باوجود پاکستان فی الحال ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ تحریر اس سے قبل عرب نیوز پاکستان میں شائع ہوئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ