انیسویں صدی کے اوائل میں سلطنتِ برطانیہ دنیا کے ہر خطے میں پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے زیرِ تسلط علاقوں میں سے ایک آسٹریلیا بھی تھا جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا تھا لیکن اس بڑے رقبے کا اکثر حصہ بنجر اور ناقابلِ گزر صحراؤں اور دشت پر مبنی تھا۔
وسیع و عریض رقبے پر تاحد نگاہ سمندر، صحرا ہی صحرا، پہاڑ اور اونچے نیچے کٹے پھٹے میدانی سلسلے تھے۔ ریلوے کا نظام مفقود ہونے کی وجہ سے آسٹریلیا کے آدھے سے زیادہ حصے کا نقشتہ تک نہ بن سکا تھا، جب برطانیہ میں ریل ایجاد ہوئی تو قدرتی طور پر انگریزوں کو خیال آیا کہ آسٹریلیا کے دور دراز مقامات کو آپس میں ملانے کے لیے ریلوے لائن سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا۔
لیکن آسٹریلیا کے طول و عرض میں ہزاروں میل پر پھیلے ہوئے بے آب و گیاہ میدانوں میں ریلوے لائن اور سٹیشن بنانے کے لیے سامانِ تعمیر پہنچانا ایک بڑا دردِ سر تھا۔ پہلے پہل گھوڑے اور خچر استعمال کیے گئے، لیکن جلد ہی معلوم ہو گیا کہ یہ جانور دوسرے حالات میں جتنے بھی کارآمد ہوں، آسٹریلیا کے موسموں کی شدت، صحرا کی وسعت مخصوص آب و ہوا کی وجہ سے یہ غیر موثر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسٹریلیا کا بیشتر حصہ خشک ہے۔ کم بارش اور زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے اندرونی دریا خشک اور جھیلیں خالی ہوتی ہیں۔ پھر ان علاقوں میں چارے کی بھی قلت تھی جن کی وجہ سے ان جانوروں کا پیٹ بھرنا بھی آسان کام نہیں تھا۔
لیکن انگریز اس زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت چلا رہے تھے۔ انہوں نے غور کیا تو مسئلے کا حل بھی نکل ہی آیا۔
یہ حل کوہان والا تھا اور اس کا نام تھا، اونٹ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں صحراؤں کو کھوجنے میں اونٹ کامیابی کے ساتھ استعمال ہوئے تھے، اور انگریزوں کو معلوم تھا کہ اس جانور کو اگر صحرا کا جہاز کہتے ہیں تو کسی وجہ سے ہی کہتے ہوں گے۔
آسٹریلیا میں اونٹوں کی درآمد کی پہلی تجویز 1822 میں ڈینش فرانسیسی جغرافیہ نگار اور صحافی کونریڈ مالٹے برون نے دی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:
’اس مہم کے لیے صاحب علم و جرات افراد کا انتخاب کیا جائے۔ جن کو ان تمام اوزار، جانوروں اور اشیائے ضرورت سے لیس کیا جائے جن سے وہ مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس بیونس آئرس یا انگریز بستیوں کے بیل ہوں۔ سینیگال کے خچر ہوں اور افریقہ یا عرب ممالک کے اونٹ ہوں۔
بیل جنگلوں اور درختوں کو عبور کریں گے، خچر پتھریلی ناہموار زمین پر باآسانی چلیں گے، جب کہ اونٹ صحرا کو باآسانی عبور کریں گے۔ اس طرح یہ مہم کسی بھی طرح کے علاقے اور زمین کے لیے تیار ہو جائے گی۔‘
آسٹریلیا میں اونٹوں کی درآمد
1839 میں جنوبی آسٹریلیا کے دوسرے گورنر لیفٹیننٹ کرنل جیورج گولر نے مالٹےبرون کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے اونٹ برآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس فیصلے کے بعد کے حالات کے حوالے سے مختلف تاریخی حوالے موجود ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ پہلا اونٹ 1840 میں آسٹریلیا میں کینری جزیرے سے پہنچا۔ تاہم دوران سفر سوائے ایک اونٹ کے باقی تمام راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ زندہ بچ جانے والے اونٹ کا نام ’ہیری‘ رکھ دیا گیا، جس کو بعد میں اندرون ملک تلاش کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
تاریخی حوالوں کے مطابق اس اونٹ کو بعد میں مالک نے ہلاک کرنے کی وصیت کی کیونکہ ایک دن دوران مہم وہ شکار کے لیے پستول کو تیار کر رہا تھا کہ اونٹ نے اسے دھکا دے دیا۔ اس حرکت سے گولی چل گئی اور ہورکس کے جبڑے میں پیوست ہو گئی اور بعد میں ہورکس کی جان لے کر ٹلی۔
آسٹریلیا میں نوآبادیاتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پہلی بڑی اندرون ملک مہم 1860 میں چلی جس کے لیے حکومت نے 24 اونٹوں کو درآمد کیا۔ اس وقت ہندوستان میں حال ہی میں بپا ہونے والے ’غدر‘ کے بعد حالات معمول پر آ چکے تھے، جس کی وجہ سے ہندوستان سے شتر بان بلائے گئے تاکہ وہ اس مہم میں حصہ لے سکیں۔
تاریخ پر گہری نظررکھنے والے معروف پشتون شخصیت بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایاز خان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں چاہے اونٹ کہیں سے بھی منگوائے گئے ہوں اور بعد میں جس خطے یا شہر سے اونٹ بان گئے ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلے شتر بان برٹش انڈیا سے گئے تھے جو کہ پشتونوں کے غلجی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
’اسی وجہ سے آسٹریلوی ریلوے کا نام بھی غان پڑ گیا جو کہ افغان سے بگڑ کر غان بن گیا ہے۔ دراصل پشتون ہی زیادہ تر تجارت اور سفر ی مصائب سے نمٹنے کے لیے موزوں لوگ تھے۔ یہ سخت جان لوگ تھے، موسموں کی سختی کا مقابلہ کر سکتے تھے اور اونٹوں کو پالنے کی طاقت رکھتے تھے۔‘
پشتون آسٹریلیا کے صحراؤں میں مہم جوئی میں مشغول ہوئے تو انہیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس زمانے میں بین البراعظمی سفر آج کی طرح آسان نہیں تھا، اسی وجہ سے بہت سے وہیں رہ گئے اور انہوں نے آسٹریلیا کو اپنا وطن سمجھ لیا۔ آج بھی ان کی نسلیں آسٹریلیا میں آباد ہیں۔
شتربانوں کی اولاد آج بھی آسٹریلیا میں ہے
آسٹریلیا کے ان شتربانوں میں افغانستان، موجودہ پاکستان کے مختلف علاقوں اور ہندوستان کے باشندے شامل تھے، لیکن آسٹریلویوں کو اتنے باریک فرق کا احساس کرنا مشکل تھا، اس لیے وہ سب کو افغان کہتے تھے، جو بعد میں صرف غان بن گیا۔
انہی ’غانوں‘ میں ایک غلام بودلا رند بھی تھے جن کا تعلق بلوچستان سے تھا۔
اس زمانے کا آسٹریلیا نسلی تعصب سے بری طرح لتھڑا ہوا تھا، اس لیے ان لوگوں کو سفید فام لوگوں سے میل جول، شام کے بعد شہر کے اندر رہنے یا ہوٹلوں اور پارکوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی، نہ ہی انہیں اپنے خاندان کے افراد کو لانے کی اجازت تھی۔
یہ لوگ اکثر شہروں کے باہر ویرانوں میں خیمے لگا کر رہتے تھے۔ اس زمانے میں آسٹریلیا کے آبائی باشندوں کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک ہوتا تھا اور انہیں مکمل شہری کے حقوق حاصل نہیں تھے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ دونوں مظلوم طبقے قریب آ گئے اور نہ صرف شتربان، آبائی آسٹریلیوں باشندوں سے ملنے جلنے لگے بلکہ انہوں نے آبائی عورتوں سے شادیاں بھی کرنا شروع کر دیں۔ رند کے ساتھ بھی یہی ہوا اور انہوں نے ایک آبائی آسٹریلین میرین مارٹن سے 1917 میں پرتھ شہر میں شادی کر لی۔
تاہم آسٹریلیا کا متعصب قانون اس قسم کی شادیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا اس لیے یہ شادی خفیہ رہی۔
چھپ چھپ کے شادی شدہ زندگی گزارنے کے نتیجے میں اس جوڑے کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے، تاہم میرین چوتھے بچے کی پیدائش کے دوران چل بسیں، لیکن رند نے ہمت نہیں ہاری اور انہوں نے قانون کی نظروں سے بچ بچا کر اپنے بچوں کی خود پرورش کی۔
پرتھ کے رہائشی گوہر رند غلام بودلا کہ پڑپوتے ہیں۔ انہوں نے آسٹریلوی چینل اے بی سی کو بتایا کہ آسٹریلیا کی تاریخ میں ان شتربانوں کے کردار کو سمجھنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا، ’اگر ان شتربانوں کی کوشش کو سمجھا جائے، انہیں سراہا جائے اور تسلیم کیا جائے تبھی ہم مختلف برادریوں کو قریب لا سکتے ہیں۔‘
آسٹریلیا کی ترقی میں اونٹوں کا کردار
اونٹ آسٹریلیا کے خشک علاقوں میں باربرداری کے نہایت کارآمد ثابت ہوا۔ اسے بڑی آسانی سے براعظم کے اندرونی حصوں میں طویل سفر کے دوران آمدورفت کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ چونکہ اونٹ ہفتوں تک پانی پیے بغیر رہ سکتا ہے، لہٰذا اونٹ کی اسی خاصیت کی وجہ سے کئی دہائیوں تک اونٹ آسٹریلیا میں روزمرہ کی زندگی میں قیمتی اثاثہ رہے۔
آسٹریلیا کا ان پرانحصار اتنا زیادہ تھا کہ 1907 تک انگریز آسٹریلیا میں تقریباً 20 ہزار اونٹ درآمد کر چکے تھے جن میں ہندوستان اورافغانستان کے علاوہ دنیا کے باقی ممالک سے بھی منگوائے جانے والے اونٹ شامل تھے۔
ان اونٹوں کے ذریعے ہی آسٹریلیا میں کٹھن اور صبر آزما ریل کا منصوبہ کامیاب کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس جانور نے چائے اور تمباکو کی کاشت اور تعمیر وترقی کے دیگر شعبوں میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
بعد میں 1851 میں آسٹریلوی ریاست وکٹوریہ میں سونے کی کانیں دریافت ہوئیں تو آسٹریلیا میں نقل مکانی کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد جا پہنچی۔ جلد ہی میلبرن آسٹریلیا کا سب سے بڑا شہر اور برطانوی سلطنت کا دوسرا بڑا شہر بن گیا۔ انگلینڈ ، آئرلینڈ اور جرمنی سے تعلیم یافتہ سونے کے متلاشی افراد کی آمد کے نتیجے میں سکولوں، گرجا گھروں، لائبریریوں اور آرٹ گیلریوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
اونٹ رے جنگلی اونٹ
غان ریلوے کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد پشتونوں اور دیگر اونٹ بانوں نے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑ دیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ اونٹ جنگلی ہو گئے۔ چونکہ ان کا شکاری کوئی نہیں تھا، اور آسٹریلیا کے دشت وسیع و عریض تھے، اس لیے ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔
رفتہ رفتہ اونٹوں کی تعداد اس حد تک پہنچ گئی کہ اب انہیں آسٹریلیا کے ماحول کے خطرہ سمجھا جانے لگا ہے۔ حکام کا خیال ہے کہ یہ اونٹ فصلیں اجاڑ دیتے ہیں، مقامی آبادیوں کو ہراساں کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں آسٹریلیا کے کئی علاقوں میں خشک سالی کا باعث قرار دے دیا گیا ہے۔
اسی وجہ سے 2019 میں دس ہزار اونٹوں کو ہیلی کاپٹر سے گولی مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں اونٹوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تاہم ’فیرل سکین‘ نامی آسٹریلین ویب سائٹ کے مطابق اس وقت آسٹریلیا میں دس سے 12 لاکھ جنگلی اونٹ موجود ہیں، جو 33 لاکھ مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں، یعنی پاکستان کے رقبے سے چار گنا زیادہ بڑا علاقہ۔
ایک تخمینے کے مطابق اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو ان اونٹوں کی تعداد ہر دس سال بعد دگنی ہو سکتی ہے۔
خرگوشوں کا معاملہ
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہیں آسٹریلیا کے خرگوشوں کا بھی ذکر ہو جائے۔ اونٹوں کی طرح خرگوش بھی آسٹریلیا میں قدرتی طور پر نہیں پائے جاتے تھے اور انہیں آباد کار اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ جلد ہی یہ لوگوں کے گھروں سے فرار ہو کر ویرانوں میں چلے گئے۔
چونکہ آسٹریلیا میں لومڑی، گیدڑ یا بھیڑیے کی طرح کے جانور نہیں ہیں جو ان خرگوشوں کا شکار کر سکتے، اس لیے ان کی آبادی جلد ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل کر قابو سے باہر ہو گئی۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ ان کے غول کے غول ٹڈی دل کی طرح فصلیں اجاڑنے لگے۔
جب تک حکام کو پتہ چلا تب تک صورتِ حال ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ اس کے بعد کئی تدبیریں آزمائی گئیں، مگر ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔‘
حضرتِ انسان کے لیے یہ معاملہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم دیکھتے آئے ہیں کہ انسان خود ہی کوئی قدم اٹھاتا ہے، بعد میں جب وہ اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے تب اسے ہوش آتا ہے کہ گڑبڑ ہو گئی، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔