راجن شاہ: جنوبی پنجاب کے علاقے لیہ میں ہزاروں لوگ اونٹوں کی لڑائی دیکھنے اکٹھے ہوئے ہیں۔
یہاں ایک کھلے میدان میں میلے کا سماں ہے اور ڈھول کی تھام پر پرجوش تماشائیوں کے درمیان سجے دھجے اونٹ مقابلے کے لیے تیار ہیں۔
لڑائی سے پہلے اونٹوں کے ہار، پھول اور گھنٹیاں وغیرہ اتار لی گئی ہیں اور پھر لڑائی کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔
لڑائی کے دوران اونٹ گردن سے زور آزمائی کرتے ہوئے حریف کو چت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس دوران زخموں سے چُور دونوں اونٹ بلبلا رہے ہیں۔
لڑائی دیکھنے والے ایک تماشائی نے اے ایف پی سے گفتگو میں اس سفاکانہ لڑائی کو ثقافتی میلہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ لوگ پر جوش انداز میں دور دور سے یہاں لڑائی دیکھنے آتے ہیں۔
اس دوران ریفری نے سیٹی بجائی اور فاتح اونٹ کا اعلان کر دیا۔ پھر کیا تھا ایک ہجوم فاتح جانور کی جانب دوڑ پڑا اور اسے گھیر لیا۔
فاتح اونٹ کا مالک تقریباً ایک لاکھ روپے جیت کر فخر محسوس کر رہا ہے۔
پاکستان میں اونٹوں کی لڑائی پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود ہزاروں لوگ لیہ میں ہونے والے مقابلے دیکھنے آتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ جانوروں مثلا بھالوؤں، کتوں، مرغوں وغیرہ کے درمیان خونی کھیلوں سے بھری پڑی ہے۔
لڑائی میں حصہ لینے والے جانوروں کی عموماً ایک سال تک تربیت کی جاتی ہے۔
حکومتیں عام طور پر ایسے مقابلوں کو نظر انداز کرتی ہیں۔ البتہ کبھی کبھی حکام کارروائی بھی کرتے ہیں۔
گذشتہ سال پاکستان نے 1890 سے نافذ جانوروں کی لڑائی پر پابندی سے متعلق قانون میں پہلی مرتبہ ایک ترمیم منظور کرتےہوئے جانور لڑانے والوں پر جرمانہ 50 روپے سے بڑھا کر تین لاکھ روپے کر دیا تھا۔
تنظیم برائے بہبود حیوانات سے وابستہ ایک وکیل عبدالحد شاہ نے بتایا کہ پاکستان میں جانوروں کی ہر طرح کی لڑائی پر پابندی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لڑائی کے درمیان زخمی ہونے والے اونٹوں کو مناسب طبی امداد نہیں ملتی، کیونکہ دیہاتی ان کے زخموں کا علاج دیسی ٹوٹکوں سے کرتےہیں۔
تاہم لڑائی دیکھنے والے تماشائی تنقید مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جانورں کے درمیان مقابلے پنجاب کی تاریخی ثقافت ہے۔
اونٹوں کی لڑائی افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں بھی عام ہے اور اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔