تین دن پہلے خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے تاریخی قصبے ٹیری میں ہندوؤں کے متبرک مقام گرو پرماہنس کے سمادھی کو مسمار کر دیا گیا، لیکن یہ اس سمادھی کے لیے مسماری کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔
کہتے ہیں کہ کوئی بھی واقعہ اکیلا پیش نہیں آتا، اس کا کوئی نہ کوئی ماضی اور پس منظر ہوتا ہے۔ آئیے ہم اس واقعے کو تاریخ کے تناظر میں دیکھتے ہیں، لیکن سب سے پہلے یہ وضاحت کہ سمادھی ہوتی کیا ہے۔
’سمادھ‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے مراقبہ کرنا۔ جہاں سادھو سنت بیٹھ کر گیان دھیان کرتے تھے اور خدا سے لو لگاتے تھے، اس جگہ کو سمادھی کہا جانے لگا۔ جب یہ سادھو مرتے تھے تو انہیں یہیں دفن کر دیا جاتا تھا، اس لیے سمادھی کا ایک مطلب مزار یا قبرستان بھی ہو گیا۔ ٹیری گاؤں میں گرو پرماہنس کا مزار ہے، جس کی وجہ سے اس مقام کو سمادھی کہا جاتا ہے۔ اس سمادھی سے ملحقہ مندر بھی ہے۔
آج پورے ضلعے میں ایک بھی ہندو نہیں، نہ ہی کسی دوسری اقلیت کی کوئی آبادی ہے، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ تقسیم سے قبل ٹیری قصبے میں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور آس پاس کے علاقے میں بھی بہت سے ہندو آباد تھے۔ یہاں ہندوؤں کا ایک بہت بڑا بازار قائم تھا جو کہ آج بھی موجود ہے۔
تقسیم سے قبل ٹیری کے باسیوں میں ہندوؤں کے ایک مذہبی پیشوا بھی تھے جنہیں گرو پرماہنس کہا جاتا تھا۔ گرو نے بازار کے ساتھ ایک آشرم قائم کر رکھا تھا جہاں پر برصغیر پاک و ہند کے دور دراز علاقوں سے ہندو علم حاصل کرنے آتے تھے۔ علاقے کے لوگوں کے مطابق گرو پرماہنس ایک پڑھے لکھے شخص تھے اور انہیں اسلام کے متعلق بھی بہت معلومات تھیں، بلکہ بعض لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ گرو پرماہنس حافظ قران بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی ان کے آشرم پر حاضر ہوتی تھی۔ گرو بیماروں کے تعویذ لکھتے تھے اور دعائیں دیتے تھے۔
گرو پرماہنس 1919 میں ٹیری میں فوت ہوئے۔ ہندو عام طور پر اپنے مردے جلاتے ہیں، لیکن گرو کی وصیت کے مطابق انہیں اسی آشرم کے احاطے میں دفن کر دیا گیا اور ان کی قبر کے اوپر ایک مقبرہ بھی تعمیر کر دیا گیا۔ اسی کو سمادھی کہا جانے لگا۔ اس کے بعد ہندو دور دراز کے علاقوں سے گرو کی زیارت کے لیے سمادھی پر آتے، سنگ مرمر سے بنی ہوئی اس قبر کو غسل دیتے اور یہاں پر منتیں مانگتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ اس سمادھی کے ساتھ ایک چھوٹا سا مندر بھی تھا۔
یہ سلسلہ قیام پاکستان تک جاری رہا۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں کی مقامی ہندو آبادی بھارت منتقل ہو گئی اور آشرم سمیت ہندوؤں کی جائیدادوں کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے حصے میں آ گیا۔ ہماری تحقیقات کے مطابق اس آشرم کے علاوہ ٹیری میں پانچ مندر تھے جس میں ایک مندر کی جگہ موجودہ ڈاک خانہ اور دوسرے مندر کی جگہ موجودہ لڑکوں کا پرائمری سکول قائم ہیں، جبکہ دیگر مندروں کا نام و نشان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹ چکا ہے۔ البتہ یہ سمادھی باقی رہی کیوں کہ گرو پرماہانس اس کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان کے 117 ٹرسٹ چل رہے ہیں۔
یہ سمادھی 1997 تک قائم رہی۔ گاؤں ٹیری ہی کے ایک شخص کو ہندوؤں نے اس کا چوکیدار مقرر کر رکھا تھا اور اسے باقاعدہ اس کام کی تنخواہ ملتی تھی۔ مزید یہ کہ جب ہندو زیارت کے لیے آتے تو اسے کچھ نہ کچھ دے کر جاتے تھے۔
پھر کسی وجہ سے اس کی تنخواہ بند ہو گئی۔ وہ سیدھا مولویوں کے پاس چلا گیا اور انہیں کہا کہ ہندوؤں کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں وہ یہاں پر مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر ایک سیاسی و مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک بااثر مولوی صاحب نے عوام کو اشتعال دلایا اور 1997 میں گرو پرماہانس کی سمادھی اکھاڑ دی گئی۔
اس وقت کے قومی اسمبلی کے تھرپارکر سے منتخب ہونے والے رکن ڈاکٹر رمیش وانکوانی نے اس کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 2015 میں حکم دیا کہ آشرم کی تعمیر کی جائے۔
تعمیر مکمل ہونے کے بعد ہندو گرو پرماہانس کی سمادھی کی زیارت کے لیے آتے رہے۔ انہوں نے ٹیری کے سول ہسپتال کے لیے ایک ایمبولینس بھی عطیہ کی جو آج بھی مریضوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ سمادھی تک آنے کے لیے پختہ سڑک تعمیر بھی کی گئی جس سے اہل علاقہ کو بھی فائدہ ملا۔
اب ہم آتے ہیں 2020 کے آخری ہفتے کی جانب۔ اس دفعہ بھی اسی مولوی کی قیادت میں ایک دفعہ پھر تاریخ دہرائی گئی اور اسی سمادھی کو نشانہ بنایا گیا اور اس وقت بھی اس میں وہی پیسوں کا عنصر نمایاں رہا۔
ہندوؤں نے یہ سمادھی دوبارہ تعمیر کی اور گذشتہ تین سالوں سے وہ سندھ سے زائرین کی شکل میں ٹیری آتے رہے، اس پر کوئی ایشو نہیں بنا۔ حکومتی سرپرستی میں پولیس کی سربراہی میں ہندو زائرین علاقے میں آتے، مذہبی رسومات ادا کر کے چلے جاتے۔ مگر جب 2020 کے اوائل میں ہندوؤں نے سمادھی سے ملحقہ ایک گھر کو بھاری قیمت پر خریدا تو یہیں سے کہانی دوبارہ شروع ہو گئی۔
اس ملحقہ مکان کے مالک کے بقول اس سمادھی کی تعمیر سے اس کے گھر کی بے پردگی ہو رہی تھی کیوں کہ سمادھی میں پولیس کے کچھ جوان اس مندر میں رہائش پذیر تھے، اور ہندو جب زیارت کے لیے آتے تو گھر والے پریشان ہوتے۔
اسی سے تنگ آ کر انہوں نے گھر کو فروخت کرنے کا سوچا اور کوہاٹ کے ایک ہندو وکیل روہت کمار نامی شخص کو گھر فروخت کر دیا۔ گھر کی فروخت پر کچھ عناصر خفا ہو گئے کیونکہ سمادھی کے نزدیک ان کی بھی جائیداد تھی جو ہندوؤں کے کام کی نہیں تھی۔
اس لیے وہ اراضی ہندوؤں نے نہیں لی اور پھر بات ایک دفعہ پھر علاقے کے مولویو ں کے پاس گئے جنہوں نے جنازوں میں اور جمعے کے خطبوں میں اسی موضوع کو زیر بحث بنایا۔ اور ساتھ ہی میں عدالت میں کیس دائر کر دیا گیا کہ ہندو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کہ وہ مندر کے علاوہ علاقے میں کوئی اراضی نہیں لے سکیں گے کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
اس کے بعد ٹیری میں ایک جلسہ کیا گیا جس میں مولویوں نے لوگوں کو خبردار کیا کہ جس نے بھی آج کے بعد ہندوؤں کے ہاتھ اراضی فروخت کی اس کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا، حتیٰ کہ ان کا نماز جنازہ بھی مولوی نہیں پڑھیں گے۔ پھر دسمبر کے مہینے میں ڈی پی او کرک سے میٹنگ ہوئی جس میں ڈی پی او نے انہیں سمجھایا کہ اس کیس سے دور رہیں، مگر مولوی اور وہی شرپسند عناصر باز نہیں آئے اور انہوں نے ٹھان لی کہ اس مندر اور سمادھی پر حملہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گاؤں کی اکثریت نے اس خیال کی مخالفت کی لیکن چند لوگ مولویوں کی باتوں میں آ گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ پولیس کو بھی ان عزائم کی خبر ہو گئی تھی مگر انہوں نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
اس کے بعد بدھ کی صبح ضلع کرک کی جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں نے ٹیری کے مین بازار شینکی اڈہ میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ہندوؤں کو برا بھلا کہتے ہوئے عوام کو اشتعال دلایا، اور آخر میں سمادھی کو تباہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ اس کے بعد لوگوں نے سمادھی کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ 1997 کی تاریخ دہراتے ہوئے سمادھی کو آگ لگا دی گئی اور اس کی چھت پر جمعیت علمائے اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا گیا۔
تحقیق کے مطابق گرو پرماہانس کا اصل آشرم تقریباً ڈیڑھ کنال پر مشتمل تھا۔ آشرم کی ملکیت میں 30 کنال پر مشتمل ایک باغ بھی تھا جس میں پھلدار درخت لگے تھے اور جہاں میٹھے پانی کا ایک کنواں بھی موجود تھا۔ اس باغ کی آمدن آشرم کو جاتی تھی۔ یہ باغ وقت کے ساتھ ساتھ اجڑ چکا ہے جبکہ کنواں اور بنجر زمین آج بھی موجود ہے۔
ٹیری میں ہندوؤں کے زمانے میں ہر بدھ کو ایک میلہ لگتا تھا جس میں دور دراز سے تاجر مال بیچنے اور خریدنے آتے تھے یہ میلہ آج بھی ہر بدھ کو لگتا ہے اور آج بھی ٹیری اور گرد و نواح سے ہزاروں لوگ اس میلہ میں شرکت کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اس میلے میں ہندو اور مسلمان اکٹھے شرکت کرتے تھے، جبکہ آج کل یہاں صرف مسلمان ہی موجود ہوتے ہیں۔