’کرک میں مندر پر حملے کے دوران قیمتی اشیا لوٹ لی گئیں‘

واقعے کے ماسٹر مائنڈ سمیت 31 ملزم گرفتار۔ پارلیمانی سیکرٹری انسانی حقوق لال چند مالہی کے مطابق جس طرح مندر پر حملہ کیا گیا اس کی مثال پاکستان کے ماضی قریب میں نہیں ملتی۔

وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی اور امور مشرق وسطیٰ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے جمعرات کو بتایا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں بانڈا داود شاہ میں مندر پر حملے کے ماسٹر مائنڈ سمیت 31 ملزم گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

ادھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہندوؤں کی سمادھی کو جلانے اور توڑ پھوڑ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک رکنی کمیشن، چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا اور آئی جی خیبرپختونخوا کو جائے وقوع کا دورہ کر کے پیر (چار جنوری) تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی ہے جبکہ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ میں منگل (پانچ جنوری) کو سماعت ہوگی۔

کرک سے رپورٹر گوہر محسود کے مطابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری انسانی حقوق اور اقلیتی رکن پارلیمنٹ لال چند مالہی اور ڈی جی وزارت انسانی حقوق محمد ارشد نے مندر کا دورہ کیا۔

مالہی نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو سخت سزا دینے کا عندیہ دیا اور بتایا کہ مرکزی کردار پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت مندر کو دوبارہ تعمیر کرے گی۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جس طرح مندر پر حملہ کیا گیا اس کی مثال پاکستان کے ماضی قریب میں نہیں ملتی۔‘ 

انہوں نے واقعے کو زیادتی اور ہراسگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مندر کے پجاری سے بات کی ہے جس کہ مطابق مندر میں موجود قیمتی اشیا بھی لوٹ لی گئیں۔ مالہی نے امید ظاہر کی کہ یہ واقعہ مثال بنے گا تاکہ آئندہ ایسا اور کوئی واقعہ نہ ہو۔ مندر کے انچارج ایڈووکیٹ روہت کمار کا کہنا تھا کہ یہ ان کے بابا کا قدیم مندر تھا اور اس مندر کو 1997 میں بھی مسمار کیا گیا تھا، جو 2015 میں سپریم کورٹ کے حکم سے دوبارہ بحال ہوا تھا۔ 

قبل ازیں واقعے کا مقدمہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے دو مقامی رہنماؤں سمیت 400 نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔ ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 اے (توہین مذہب) اور دہشت گردی کی دفعات سمیت لوٹ مار، بلا اشتعال فائرنگ اور خوف وہراس پھیلانے کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔

تھانہ ٹیری میں درج مقدمے کے مطابق مسماری کے دن جمعیت علمائے اسلام کا ایک جلسہ مولانا محمد شریف، مولانا امیر زاقم، مولانا امان اللہ،مولانا امداد اللہ، مولانا مطیع اللہ، مولانا محمد حلیم اور مولانا انور زمان کی قیادت میں منعقد کیا گیا تھا۔

مقدمے کے مطابق جلسے کے شرکا سے خطاب میں مولانا محمد شریف نے کہا کہ 'ہم ٹیری کی زمین پر سمادھی کو قائم رکھنے اور یہاں ہندو کمیونٹی کی آمدورفت کو برداشت نہیں کریں گے۔'

سپریم کورٹ نے واقعے کا نوٹس لے لیا

ایف آئی آر کے متن کے مطابق: ’مولانا شریف نے 1500 افراد پر مشتمل مجمعے کو حکم دیا کہ جائیں اور ہندوؤں کی سمادھی کو مکمل طور پر مسمار کردیں۔‘ ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے مزید کہا: 'سمادھی کی مسماری کے وقت اگر کوئی مسلمان جان سے گیا تو وہ شہید ہوگا اور اگر کوئی حکومتی اہلکار اس دوران چل بسا تو وہ مردار ہوگا۔'

مقدمے میں درج ہے کہ اس حکم کے بعد 400  کے قریب افراد مولانا محمد شریف اور مولانا محمد فیض اللہ کی قیادت میں سمادھی پر حملہ آور ہوگئے اور اس کو آگ لگا دی جبکہ مجمعے کے شرکا کی جانب سے پولیس پر با ارادہ قتل فائرنگ بھی کی گئی اور سمادھی سے قیمتی اشیا بھی اٹھا لی گئیں۔

کرک کے ضلعی پولیس افسر عرفان اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقدمے میں نامزد ملزمان میں سے اب تک 31 افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ ’گرفتار افراد میں جمعیت علمائے اسلام کے مقامی رہنما بھی شامل ہیں، تاہم اس کا تعلق پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ یہ انفرادی عمل تھا۔‘

 

سمادھی پر تنازع کیا چل رہا تھا؟

ٹیری کے اس علاقے میں کسی زمانے میں مندر ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں وہاں پر شری پرم ہنس جی کے نام سے سمادھی بنائی گئی تھی۔ شری پرم ہنس کا انتقال اسی گاؤں میں 1919 میں ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم 1997 میں سمادھی کی زمین پر علاقے کے ایک مقامی مفتی نے دعویٰ کیا کہ ان کو یہ زمین 60 کی دہائی میں حکومت نے دی تھی اور انہوں نے اس زمین پر کچھ تعمیرات کا کام بھی کیا تھا۔

پاکستان ہندو کونسل کی جانب سے اس متنازع زمین پر 2015 میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ مارچ 2015 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے سمادھی کی زمین ہندو کمیونٹی کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس وقت کی خیبر پختونخوا حکومت کو حکم دیا تھا کہ سمادھی میں کسی قسم کی توڑ پھوڑ کو روک دیا جائے اور اس کی تاریخی حیثیت بحال کی جائے۔ حالیہ مسماری کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب سمادھی کے منتظمین سمادھی سے متصل زمین پر مندر کی تعمیر کا کام شروع کر رہے تھے۔

اس حوالے سے ہندو مذہبی سکالر اور پاکستان کونسل آف ولڈ ریلیجن کے رکن اور وزیراعظم عمران خان کے ٹاسک فورس برائے مذہبی سیاحت کے رکن ہارون سربدیال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'یہاں ہمارے مذہبی پیشوا کی سمادھی موجود ہے اور پورے پاکستان سے ہر جمعرات کو کوئی نہ کوئی فیملی یہاں آتی ہے۔'

انہوں نے بتایا کہ 'اس علاقے میں ہندو کمیونٹی کے لوگ موجود نہیں ہیں اور صرف دیگر علاقوں سے دعا کے لیے آتے ہیں۔ یہ ہماری مذہبی پیشوا کی سمادھی ہے، جس طرح مسلمانوں کے مذہبی لوگوں کے مزارات ہوتے ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان