خیبر پختونخوا: مشتعل ہجوم نے مندر مسمار کر دیا

ضلع کرک کے اس علاقے میں کسی زمانے میں مندر ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں وہاں پر شری پرم ہنس جی کے نام سے سمادھی بنائی گئی تھی۔ شری پرم ہنس کا انتقال اسی گاؤں میں 1919 میں ہوا تھا۔

خیبر پختونخوا کے ضلع کرک  کی پولیس کا کہنا ہے ضلع ٹیری میں قائم شری پرم ہنس جی سمادھی کو مشتعل ہجوم نے  آگ لگانے کے بعد مسمار کر دیا۔

یہ واقعہ بدھ کی صبح کو پیش آیا۔ تحصیل  بانڈہ داؤد شاہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس فضل شیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مندر سے متصل زمین پر تنازع چل رہا ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے اس میں 2015 میں فیصلہ بھی سنایا گیا تھا۔

تاہم فضل شیر کے مطابق اسی زمین پر مندر کے ساتھ نئی عمارت تعمیر کرنے پر علاقے کے لوگ مشتعل ہو گئے اور مندر کی عمارت کو آگ لگا کر مسمار کر دیا۔

فضل شیر نے بتایا: ’پولیس اس کو کیس کو دیکھ رہے ہیں لیکن ابھی تک تفتیش شروع نہیں کی گئی ہے کیونکہ ابھی تازہ واقعہ ہے اس لیے کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا ہے۔‘

مندر کی مسماری کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مندر کی عمارت پر آگ لگی ہے اور باقی لوگ عمارت کو ہتھوڑوں سے مسمارکر رہے ہیں۔

سمادھی پر تنازع کیا چل رہا تھا؟

ٹیری کے اس علاقے میں کسی زمانے میں مندر ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں وہاں پر شری پرم ہنس جی کے نام سے سمادھی بنائی گئی تھی۔ شری پرم ہنس کا انتقال اسی گاؤں میں 1919 میں ہوا تھا۔

تاہم 1997 میں سمادھی کی زمین پر علاقے کے ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ ان کو یہ زمین 60 کی دہائی میں حکومت نے انہیں دی گئی تھی اور انہوں نے اس زمین پر کچھ تعمیرات کا کام بھی کیا تھا۔

پاکستان ہندو کونسل کی جانب سے اس متنازع زمین پر 2015 میں سپریم کورٹ رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ مارچ 2015 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے بتایا تھا کہ سمادھی کی زمین ہندؤں کمیونٹی کے حوالے کی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس وقت کی خیبر پختونخوا حکومت کو حکم دیا تھا کہ سمادھی میں کسی قسم کی توڑ پھوڑ کو روک دیا جائے اور اس کی تاریخی حیثیت بحال کی جائے۔

اس حوالے سے ہندو مذہبی سکالر اور پاکستان کونسل آف ولڈ رلیجن کے رکن اور وزیراعظم عمران خان کے ٹاسک فورس برائے مذہبی سیاحت کے رکن ہارون سربدیال نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس سمادھی کے حوالے سے بتایا کہ یہاں ہمارے مذہبی پیشوا کی سمادھی موجود ہے اور پورے پاکستان سے ہر جمعرات کو کوئی نہ کوئی فیملی یہاں آتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ سمادھی کی مسماری سے ہندوؤں کے مذہبی احساسات کو شدید دھچکہ لگا ہے اور وہ سخت پریشان ہیں۔

سربدیال نے بتایا: ’یہ کس طرح کا ملک ہے جہاں پر مذہبی مقامات محفوظ نہیں ہے۔ عمران خان مذہبی سیاحت کی بات عالمی پلیٹ فارموں پر کرتے ہیں لیکن ان کے اپنے ملک میں مذہبی مقامات محفوظ نہیں ہیں۔‘

سربدیال نے بتایا کہ حالیہ واقعے میں ہندوؤں نے صرف اتنا کہا تھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق یہ زمین ہندوؤں کی ہے جس پر لوگ مشتعل ہو گئے اور مذہبی مقام کی بے حرمتی کی۔

انھوں نے بتایا,’ حکومت اگر توہین مذہب کی قوانین پر عمل کریں تو یہ واقعہ بھی اس زمرے میں آتا ہے اور حکومت کو اس پر ایکشن لینا چاہیے۔اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اگر نہیں تو ایسے کونسل کی ہی بند کرنا چاہیے جو مذہبی مقامات کی حفاظت نہ کر سکے..’

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان