خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے تاریخی قصبے ٹیری میں ہندوؤں کے مقدس مقام گرو پرماہنس پر ہندوؤں کے تعمیر کردہ مندر کے بعد، یہاں تک پہنچنے کے لیے بننے والی پختہ گلی نے علاقہ مکینوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا۔
انھوں نے گذشتہ کئی سالوں سے گلی پختہ کرنے کے لیے پچھلی کئی حکومتوں کو درخواستیں دے رکھی تھیں۔ گذشتہ روز اسی گلی پر اپنے گھر جاتے ہوئے میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ پوری گلی پختہ ہے حتیٰ کہ ہندوؤں کا پرانا بازار بھی مکمل طور پر پختہ کر دیا گیا۔
میں نے اس کام پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بہت دعائیں دیں مگر جب مجھے کسی نے بتایا کہ اس راستے کو پختہ کرنے میں پی ٹی آئی کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ ہندوؤں نے مندر تک جانے کے لیے یہ راستہ خود پختہ کیا ہے تو میں نے انھیں دعائیں دیں کہ انھوں نے علاقے کے لوگوں پر احسان کیا کیونکہ پرانے زمانے میں اس راستے کو پڑانگ دروازہ کے نام سے جانا جاتا تھا اور ایک روایت کے مطابق یہاں ایک چیتا کھڑا ہوتا تھا جو اپنے علاقے کے لوگوں کے علاوہ کسی کو بھی گاؤں میں اندر نہیں آنے دیتا تھا۔
مگر ہندوؤں کے جانے کے بعد اس گلی پر کسی بھی حکمران کی نظر نہیں گئی۔ اس علاقے کے سابق رکن قومی اسمبلی ناصر خان کا گھر اسی گلی میں تھا، مگر انھوں نے بھی اپنے وقت میں اس پر کوئی نظر عنایت نہیں کی۔
اب جب سے ہندوؤں نے یہاں مقبرہ تعمیر کرایا ہے، تب سے یہ گلی پختہ ہو گئی ہے۔ ماضی میں جب ہندو برادری نے مقبرہ تعمیر کرنے کے علاوہ علاقے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی تھی تو علاقے کے لوگ سیخ پا ہوگئے تھے۔
15 اگست 1997 کو ہندوؤں کی ایک جماعت گرو مندر کی زیارت کے لیے یہاں آئی تو ایک مقامی مولوی کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم نے مندر پر دھاوا بولتے ہوئے اس مقبرے کو تہس نہس کر دیا اور سنگ مرمر کی اینٹوں تک کو اکھاڑ دیا۔
ان کے مطابق یہ مندر فساد کی جڑ ہے اور جب یہاں ہندو نہیں ہیں تو ان کی عبادت گاہ کی کیا ضرورت ہے، اس مندر کی آڑ میں وہ اپنے ہندومت کا پرچار کرنا چاہتے ہیں۔
ان ہندوؤں نے علاقے کے لوگوں کو ٹیری میں جدید ہسپتال، سکول، کالج اور سڑکوں تک کی تعمیر کا کہا مگر لوگوں نے یہ پیشکشیں مسترد کردی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہاں مندر کی تعمیر ہو گئی اور اب اس مندر پر پولیس دن رات پہرہ دے رہی ہے اور ہندو زائرین اس مندر میں عبادت کے لیے وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں۔
جہاں یہ مندر تعمیر کیا گیا ہے وہاں پر گرو پرماہنس ٹیری کے قصبے میں رہائش پذیر تھے جہاں دیگر ہندو بھی رہتے تھے اور ٹیری قصبے میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔
پوری دنیا میں گرو پرماہانس کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان کے 117 ٹرسٹ چل رہے ہیں، یعنی ان کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں۔ جس علاقے میں یہ مندر قائم ہے اس علاقے پر نوابوں کی حکمرانی رہی اور اُس دور سے اب تک یہ علاقہ بدحالی کا شکار ہے۔
یہاں مغلوں اور انگریزوں کے دور تک کوئی تسلی بخش کام نہیں ہوا۔ جس وقت ٹل سے لے کر میانوالی اور اٹک تک کے علاقے شامل تھے، نواب آف ٹیری یا خٹک سردار اس ریاست کے والی ہوتے تھے اور انگریز نے اس علاقے کو ’دی کنٹری آف خٹکس‘ کا نام دیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی ریاستی حیثیت ختم کر دی گئی اور اسے ضلع کوہاٹ کے ساتھ ضم کر دیا گیا۔
بعد میں اسے ضلع کرک میں شامل کردیا گیا، مگر یہاں کی ترقی کے لیے کسی نے بھی کوشش نہیں کی۔ اس مندر کی تعمیر کے ساتھ اب یہ امید ہو چلی ہے کہ شاید یہاں قائم پرانا بازار بھی اپنی اصل حالت میں آ جائے جو قیام پاکستان سے قبل اس کا خاصہ تھی۔
گرو پرماہنس نے بازار کے ساتھ ایک آشرم قائم کر رکھا تھا جہاں پر برصغیر پاک وہند کے دور دراز علاقوں سے ہندو تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔
مقامی لوگوں کے مطابق گرو پرماہنس ایک پڑھے لکھے شخص تھے اور انھیں اسلام کے متعلق کافی معلومات تھیں۔ بعض لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ گرو پرماہنس حافظ قران تھے، اسی وجہ سے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی ان کے آشرم پر حاضر ہوتی تھی۔ یہ گرو بیماروں کے لیے تعویذ لکھتے اور دعائیں دیتے تھے۔
گرو پرماہنس 1919 میں ٹیری میں فوت ہوئے اور اسی آشرم میں انھیں دفن کر کے ایک مقبرہ تعمیر کرایا گیا۔ گرو پرماہنس کی موت کے بعد بھی ہندو دور دراز کے علاقوں سے زیارت کے لیے مقبرے پر آتے اور سنگ مرمر سے بنی اس قبر کو غسل دیتے اور یہاں پر نذر اور منت مانگ کر چڑھاوے چڑھاتے۔
یہ سلسلہ قیام پاکستان تک جاری رہا۔ اب مندر کی تعمیر کے بعد یہاں ہندوؤں کی دوبارہ آمدورفت شروع ہو گئی ہے جس کے بعد امید ہو چلی ہے کہ شاید اس مندر کی تعمیر کے باعث اس علاقے کی ترقی کا باب کھل جائے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے تو کچھ نہیں کیا، اب شاید ہندوؤں کے آنے کے بعد علاقے کو کچھ فائدہ ہو جائے۔
مگر اس کے لیے ہندوؤں کا یہاں آنا ضرروی ہے۔ اس لیے ہمارے دلوں سے یہ دعا نکلتی ہے کہ کاش ہمارے گاؤں میں دوبارہ ہندو آ جائیں۔۔۔