حقیقت تو یہی ہے کہ مارچ کے اوائل اور آخر میں وزیر اعظم عمران خان کی اپنے دو اہم وزیروں کے ساتھ دو تفصیلی نشستیں ہوئیں جن میں بہت تفصیل کے ساتھ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بھارت سے کپاس اور چینی کی تجارت کو کھولا جائے۔
یہ تجویز اول اول وزارت تجارت کی جانب سے لائی گئی تھی جسے وزیر اعظم عمران خان کا بھرپور اعتماد حاصل تھا۔ اس تجویز کو اصل سہارا گذشتہ ماہ پاک بھارت سیز فائر معاہدے کے بعد ملا، وگرنہ اس سے پہلے تک تو وزیرِ تجارت واضح الفاظ میں بھارت سے کپاس کی درآمد کی نفی کرتے رہے تھے۔
کسی زمانے میں کپاس اور چینی جیسی فصل میں خود کفیل رہنے والے زرعی ملک پاکستان کے حالات یہاں تک کیسے پہنچے کہ بھارت سے درآمد کی نوبت آ جائے اس کا تفصیلی تذکرہ کسی اور کالم کے لیے۔
فی الحال تو یہ بات کہ پاکستان بھارت سے کپاس کوئی آج کی درآمد نہیں کر رہا بلکہ یہ سلسلہ تو کم و بیش گذشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔
اس سال توقع تھی کہ ملک میں 70 لاکھ گانٹھوں سے زائد پیداوار ہو گی لیکن حقیقی پیداوار انتہائی کم یعنیٰ 50 لاکھ گانٹھوں تک محدود ہے جو ملکی طلب (ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد گانٹھوں) سے دگنی سے بھی زیادہ قلیل ہے۔
بھارت سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کا آپشن نہ صرف سستا بلکہ تیز رفتار بھی ہے، وگرنہ سیز فائر معاہدہ بحال ہونے سے پہلے پاکستان بھارت کے علاوہ دیگر ممالک سے ہی چینی اور کپاس منگوانے پر غور کر رہا تھا۔
حالیہ گھن چکر کے بعد اب ظاہر ہے کہ پاکستان کو پرانے آپشنز پر واپس جانا پڑے گا جو مہنگےتو ثابت ہوں گے ہی ساتھ میں شپمنٹس پاکستان پہنچنے میں کچھ مہینے لگ جائیں گے۔
لیکن جہاں بات اصولوں کی ہو پھر وہاں سودا کوئی بھی گھاٹے کا نہیں ہوتا۔ بھارت کے ساتھ تجارت معطل تو کی گئی تھی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں پاکستان ہمیشہ خسارے میں ہی رہا۔
دونوں ممالک کے درمیان 2.3 ارب ڈالرز کی رسمی تجارت میں بھارت کا فائدہ دو ارب ڈالرز جبکہ پاکستان کا محض 0.38 ارب ڈالرز رہا یعنیٰ اونٹ کے منہ میں زیرہ۔
پاکستان نے دو طرفہ تجارت پر پابندی اگست 2019 میں لگائی تھی لیکن بھارت فروری 2019 سے ہی پاکستان پر کچھ ایسی تجارتی پابندیاں عائد کر چکا تھا جن سے پاکستان مسلسل خسارے میں جا رہا تھا۔ مثلاً بھارت نے فروری 2019 میں پاکستان کے لیے تجارت کے حوالے سے ’پسندیدہ ترین خصوصی حیثیت‘ ختم کرتے ہوئے سرحد پار آمد و رفت کی تجارت ختم کر دی تھی۔
بھارت کے ان اقدامات سے پاکستان کی بھارتی برآمدات میں بڑا نقصان ہوا اور یہ برآمدات 30 ملین ڈالرز سے کم ہو کر ایک چوتھائی سے بھی نصف حصے یعنیٰ محض چار ملین ڈالرز پر آ گئیں جبکہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے لیے برآمدات اپنی پرانی سطح یعنیٰ 150 ملین ڈالرز پر ہی قائم رہیں اور غبارے کی طرح بھارت کا تجارتی نفع بڑھتا ہی رہا۔
دوسرے طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک بھارت دو طرفہ تجارت ایسی اشیا پر منحصر نہیں جو معاشی اور تجارتی پہیہ چلتے رہنے کے لیے کلیدی مقام رکھتی ہوں۔ پاکستان بھارت کو سیمنٹ، چمڑا، سٹیل سکریپ، خشک کھجوریں، چند آئل کی اقسام اور اس جیسی چند مزید چیزیں ایکسپورٹ کرتا ہے اور ان برآمدات کا ملکی حجم میں حصہ محض ڈیڑھ فیصد کے قریب بنتا ہے۔
بھارت پاکستان کو کپاس، دھاگہ، فارماسیوٹیکل کی اشیا، کچھ مشینری اور ان جیسی چند بنیادی چیزیں ایکسپورٹ کرتا ہے جو پاکستان کی درآمدات کا محض دو سے تین فیصد بنتا ہے۔ البتہ بھارت ان برآمدات سے دو ارب ڈالرز ضرور کماتا ہے لہٰذا دو طرفہ تجارت کے معطل ہونے میں پاکستان سے زیادہ بھارت کا نقصان ہے۔
پاکستان جو اشیا بھارت کو ایکسپورٹ کرتا ہے ان کی متبادل اور کہیں زیادہ مسابقتی مارکیٹ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک، وسطیٰ ایشیا کے ممالک، بحرِ اوقیانوس کا خطہ، کچھ عرب ممالک اور کسی حد تک یورپ کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو بات ہو رہی ہے پاک بھارت رسمی تجارت کی لیکن اگر غیر رسمی تجارت کی بات کی جائے جو سمگلنگ اور دیگر ذرائع سے کی جاتی ہے، جس میں بڑا حصہ زمینی راستے سے بذریعہ متحدہ عرب امارات، تھائی لینڈ اور سنگاپور سے ہوتا ہے، اس غیر رسمی تجارت کا حجم چار ارب ڈالرز ہے جو رسمی تجارت سے دگنا ہے۔
غیر رسمی تجارت میں بھی فائدہ اور نفع کا بڑا حصہ بھارت کو پہنچتا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاک بھارت تجارت کے مزید دروازے کھولے جائیں تو یہ حجم دو ارب ڈالرز سے بڑھ کر سالانہ 37 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے جس میں پاکستان کا نفع بھارت کے مقابلے میں بڑھ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ کبھی بھی سنجیدہ معاشی اور تجارتی تعلقات استوار نہیں کیے گئے اور بھارت کبھی بھی پاکستان کے ساتھ متنازع مسائل کے حل کے لیے مخلص اور سنجیدہ نہیں رہا کیونکہ تنازعات کا حل اور دو طرفہ امن و سلامتی معاشی خوشحالی کی ضامن ہے جو بھارت کبھی بھی پاکستان کے حق میں نہیں چاہتا۔
ایک طرف بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں ظلم و بربریت کا پہاڑ توڑے بیٹھا ہے اور دوسری جانب پاکستان کی خطے اور دنیا میں معاشی نس بندی کا پلان بھی رکھتا ہے۔
ایسے میں بھارت کے ساتھ یک طرفہ تجارت بحال کرنے کا فیصلہ قطعاً پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا اور وزیرِ اعظم عمران خان کو اپنے ایسے وزیروں مشیروں کے مشوروں سے دور ہی رہنا چاہیے۔