پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ہفتے کو کابل میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے اتفاق کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی غلط سرگرمی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس حوالے سے سخت ترین کارروائی کریں گے۔
اسحاق ڈار نے آج کابل کے ایک روزہ دورے کے دوران عبوری افغان وزیر اعظم حسن اخوند اور وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقاتیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ باقاعدہ تجارتی نمائشوں کے انعقاد اور تجارتی وفود کے تبادلے پر بھی اتفاق ہوا ہے تاکہ دونوں ممالک کے باہمی مفاد میں تجارت کے فروغ کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔
اسحاق ڈار کے مطابق افغان ٹرانزٹ سامان کے لیے پاکستانی حکام اے پلس پلس کیٹیگری کی انشورنس گارنٹیز کو قبول کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ طورخم میں ITTMS (انٹیگریٹڈ ٹرانزٹ ٹریڈ مینیجمنٹ سسٹم) بھی 30 جون تک فعال کر دیا جائے گا۔
افغان شہریوں کی بے دخلی پر ’اظہارِ تشویش‘
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے آج اپنے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار سے ملاقات میں اپریل کے آغاز سے اب تک ہزاروں افغان شہریوں کی ’جبری ملک بدری‘ پر ’گہری تشویش اور مایوسی‘ کا اظہار کیا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان نے اس مہینے کے آخر تک آٹھ لاکھ سے زیادہ افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے کے لیے مہم پر سختی سے عمل شروع کر رکھا ہے۔
ان افغان شہریوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ ان میں بعض وہ افراد بھی شامل ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے یا کئی دہائیوں سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی اسحاق ڈار سے ملاقات کے حوالے سے افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیا احمد نے ایکس پر پوسٹ میں کہا: ’متقی نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی صورت حال اور ان کی جبری ملک بدری پر گہری تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’انہوں (متقی) نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ وہاں (پاکستان میں) مقیم افغانوں اور یہاں آنے والوں کے حقوق کی پامالی کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسحاق ڈار نے افغان حکام کو یقین دہانی کرائی کہ افغانوں کے ساتھ ’بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ کی افغان وزیر اعظم سے ملاقات
اسحاق ڈار نے آج افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے بھی ملاقات کی، جس میں سلامتی و تجارت جیسے معاملات پر گفتگو ہوئی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے سلامتی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی تعلقات سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اعلی سطح پر تبادلوں کی اہمیت کے حوالے سے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
اسحاق ڈار آج کابل پہنچے تو ہوائی اڈے پر افغان حکومت کے ڈپٹی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد نعیم وردگ، ڈی جی وزارت خارجہ مفتی نور احمد، چیف آف سٹیٹ پروٹوکول فیصل جلالی بھی شامل نے ان کا استقبال کیا۔
اس موقعے پر افغانستان میں پاکستان کے ہیڈ آف مشن سفیر عبید الرحمٰن نظامانی اور سفارت خانے کے افسران بھی موجود تھے۔
بعد ازاں اسحاق ڈار افغان وزارت خارجہ پہنچے جہاں مولوی امیر خان متقی نے ان کا استقبال کیا۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی قیادت کر رہے ہیں جس میں افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان، وزیر اعظم کے نمائندے خصوصی ایم طارق باجوہ، تجارت، ریلوے اور داخلہ کے وفاقی سیکرٹریز کے علاوہ دیگر اعلی حکام شامل ہیں۔
اسلام آباد نے اپریل کے آخر تک آٹھ لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو بے دخل کرنے کے لیے ایک سخت مہم شروع کی ہے جن کے رہائشی اجازت نامے منسوخ ہو چکے ہیں، جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے یا کئی دہائیوں سے وہاں مقیم تھے۔
افغان خاندانوں کے قافلے چھاپوں، گرفتاریوں یا خاندان کے افراد سے الگ ہونے کے خوف سے ہر روز سرحدی گزرگاہوں کی طرف جا رہے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعے کو ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ اسحاق ڈار ہفتے کو ایک روزہ دورے پر کابل جائیں گے جہاں باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ افغان سرزمین پر عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کا معاملہ بھی اٹھایا جائے گا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا تھا کہ اسحاق ڈار اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ کابل میں افغانستان قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات حالیہ مہینوں میں سکیورٹی، سیاسی اور سرحدی مسائل کی وجہ سے کشیدہ رہے ہیں۔
اسلام آباد نے کابل میں طالبان کی قیادت والی عبوری حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستان مخالف شدت پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہے جو سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی اور معاونت کر رہے ہیں۔ کابل نے ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق لندن میں 13 اپریل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، داعش خراسان اور دیگر ’دہشت گرد تنظیمیں‘ افغانستان سے آپریٹ کر رہی ہیں اور پاکستان میں بےگناہ لوگوں کو ’شہید‘ کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ کہ ’افغان عبوری حکومت کو ہم نے متعدد بار یہ پیغام دیا کہ دوحہ معاہدے کے مطابق وہ کسی طور پر بھی افغانستان کی سر زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن بد قسمتی سے ٹی ٹی پی، آئی ایس کے پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں وہاں سے آپریٹ کرتی ہیں اور پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو انہوں نے شہید کیا ہے۔‘
افغانستان کی طرف سے پیر کو ایک بیان میں پاکستانی وزیر اعظم کے اس بیان کو مسترد کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، داعش خراسان اور دیگر ’دہشت گرد تنظیمیں‘ افغانستان سے آپریٹ کر رہی ہیں۔