ایران کی وزارت خارجہ نے ہفتے کو کہا کہ امریکہ سے جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کا دوسرا دور تکمیل تک پہنچ گیا جس کے بعد دونوں فریقین میں ایک ہفتے کے بعد تیسری دفعہ بات چیت پر اتفاق ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان عمان کی ثالثی میں روم میں ہونے والی بات چیت چار گھنٹے طویل تھی اور ’تعمیری‘ ماحول میں ہوئی۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بات چیت کو ایک ’اچھی ملاقات‘ قرار دیا جس سے پیش رفت ہوئی۔
انہوں نے ایران کے سرکاری ٹی وی کو بتایا، ’اس بار ہم اصولوں اور اہداف کے سلسلے میں ایک بہتر تفہیم تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔‘
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی کا ایکس پر کہنا تھا کہ ’دونوں فریقین نے آنے والے دنوں میں بالواسطہ بات چیت تکنیکی سطح پر دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اگلے ہفتے کے دن کو دو سینیئر مذاکرات کاروں کی موجودگی میں (گفتگو) ہو گی۔‘
امریکہ اور ایران کے درمیان ایرانی ایٹمی پروگرام پر اہم مذاکرات گذشتہ ہفتے ہونے والے ابتدائی دور کے بعد ہو رہے ہیں، جنہیں دونوں فریقوں نے ’تعمیری‘ قرار دیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے نمائندے سٹیو وٹکوف ان مذاکرات میں شریک تھے۔
امریکہ سمیت مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، جس کی تہران مسلسل تردید کرتا آیا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اس کا پروگرام پُرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی تعلقات 1979 کے ایرانی اسلامی انقلاب کے فوراً بعد سے منقطع ہیں۔
جنوری میں دوبارہ منصب سنبھالنے کے بعد، ٹرمپ نے ایران کے خلاف اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی مہم کو دوبارہ شروع کیا، جس کے تحت انہوں نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کیں۔
مارچ میں، انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھا، جس میں ایٹمی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تجویز دی گئی، لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو فوجی کارروائی بھی ممکن ہے۔
جمعرات کو ٹرمپ نے کہا کہ ’میں فوجی اقدام کے لیے جلدی میں نہیں ہوں، میرا خیال ہے کہ ایران بات کرنا چاہتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعے کو عراقچی نے کہا کہ ایران نے پہلے مرحلے کے دوران امریکی جانب ’کسی حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ‘ دیکھا، لیکن ان کے ارادوں پر سوالات بھی موجود ہیں۔
انہوں نے ماسکو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’ اگرچہ ہمیں امریکی فریق کے ارادوں اور مقاصد پر سنجیدہ شکوک و شبہات ہیں، تاہم ہم ہفتے کو ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوں گے۔‘
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کی قیادت میں ایک وفد جوہری مذاکرات سے قبل روم پہنچ چکا ہے۔ یہ اطلاع ایرانی سرکاری ٹیلی وژن نے ہفتے کی صبح دکھائی گئی تصاویر کے ذریعے دی، جن میں عراقچی کو ایران کے ایک طیارے سے اترتے ہوئے دکھایا گیا۔
وہ امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹ کوف کے ساتھ عمان کی ثالثی میں مذاکرات کے دوسرے دور میں شرکت کریں گے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایسٹر کے اختتام ہفتہ کے دوران اٹلی میں ہونے والے یہ مذاکرات ایک بار پھر امریکی ارب پتی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے گرد گھومیں گے۔
ان اعلیٰ سطح کے حساس مذاکرات میں اگر یہ دونوں شخصیات کسی مشترکہ نقطے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں تو بات چیت کی کامیابی ممکن ہو سکتی ہے، ورنہ ناکامی کا خطرہ موجود ہے۔
یہ خطرہ بھی ہے کہ امریکہ یا اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر فوجی حملہ کر سکتے ہیں، یا پھر ایران جوہری ہتھیار کے حصول کی دھمکی پر عمل کر گزرے۔
عراقچی اور وٹکوف دونوں مذاکرات سے پہلے مختلف ملکوں کے دورے کر چکے ہیں۔
وٹکوف یوکرین کے معاملے پر بات چیت کے لیے پیرس میں موجود رہے، جبکہ عراقچی تہران سے روانہ ہو کر ماسکو گئے جہاں انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔