یہ جولائی 1944 کا واقعہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کشمیر کے دورے سے واپسی پر راولپنڈی پہنچتے ہیں۔ ان کا قیام فلیش مینز ہوٹل راولپنڈی میں ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح ان کے ساتھ ہیں۔ قائداعظم سستانے کے لیے کمرے میں کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اراکین کمرے کے باہر انتظار کر رہے ہیں۔ ایسے میں گورڈن کالج راولپنڈی کے دو طلبہ سید احمد مسعود اور محمد اشرف بھی وہاں پہنچتے ہیں۔
محمد اشرف کے پاس کیمرا ہے۔ دونوں طلبہ دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح باہر آتی ہیں اور طلبہ سے آنے کا مقصد پوچھتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم سے ملنا چاہتے ہیں۔
فاطمہ جناح اندر جاتی ہیں اور پھر قائد اعظم طلبہ کو اندر بلا لیتے ہیں۔ کچھ گفتگو کرتے ہیں اور پھر باہر لان میں آ کر طلبہ کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔
یہ تاریخی واقعہ منظورالحق صدیقی کی کتاب ’قائد اعظم اور راولپنڈی‘ میں درج ہے۔
تاریخی فلیش مینز ہوٹل جہاں قائداعظم ٹھہرا کرتے تھے اسے 30 جون، 2020 سے تالے لگے ہوئے ہیں۔
فلیش مینز ہوٹل کا مستقبل
راولپنڈی کی 150 سالہ تاریخ کے امین اس ہوٹل کا مستقبل کیا ہو گا اس بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ کیا اسے ہوٹل کے طور پر برقرار رکھ کر اس قیمتی اور تاریخی ورثے کا تحفظ کیا جائے گا یا پھر اسے گرا کر یہاں کوئی بڑا ہوٹل یا پلازا کھڑا کر دیا جائے گا؟
اس حوالے سے جب فلیش مینز ہوٹل کے جنرل مینیجر اشفاق احمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ سیاحت کا شعبہ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو منتقل کیا جا چکا ہے مگر فلیش مینز ہوٹل کی ملکیت پر تنازع ہے۔ ملٹری اسٹیٹس آفس اسے اپنی ملکیت قرار دیتا ہے، اس لیے اسے پنجاب کو نہیں دیا جا رہا۔ تاہم اس کے مستقبل کے تعین کے لیے ایک کمپنی انٹرنیشنل کنسلٹنگ ایسوسی ایٹس کی خدمات لی گئی ہیں جس نے اپنی رپورٹ تیار کرلی ہے جو پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے آئندہ بورڈ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
فلیش مینز ہوٹل امپلائز یونین کے صدر سردار جاوید خان کہتے ہیں کہ پچھلے سال دو جولائی کو کرونا کا بہانہ بنا کر بیک جنبش قلم ہوٹل کے 400 کے قریب ملازمین کو فارغ کر دیا گیا۔
ان میں ایسے ملازمین بھی تھے جن کی ملازمت کو 30 سے 40 سال ہو چکے تھے۔ انتظامیہ نے خسارے کا بہانہ بنا کر لیبر کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر رکھی تھی کہ ہم ہوٹل بند کرنا چاہتے ہیں مگر فیصلہ آنے سے پہلے ہی ملازمین کو نکال دیا گیا۔
حکومت نے پی ٹی ڈی سی بورڈ کے اوپر ایک اور بورڈ نیشنل ٹورازم کوآرڈینیشن بورڈ (این ٹی سی بی) بنا دیا ہے جس کے چیئرمین زلفی بخاری ہیں، تاہم وہ مستعفی ہو چکے ہیں۔
کنٹونمنٹ بورڈ ہوٹل کی خالی جگہ کو پارکنگ میں تبدیل کر چکا ہے۔ ہوٹل کا مستقبل کیا ہو گا اور ملازمین کہاں جائیں گے؟ اس بارے میں جاوید خان نے بتایا کہ ’ہم نے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا ہوا ہے مگر ابھی تک حکومت نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔‘
انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ ہوٹل خسارے میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ مارکی اور بل بورڈز کا کرایہ ہی ڈھائی کروڑ روپے سالانہ کے لگ بھگ تھا، اس کے باوجود ہوٹل اگر خسارے میں تھا تو اس کی ذمہ دار انتظامیہ ہے نہ کہ ملازمین۔
فلیش مینز ہوٹل راولپنڈی کب تعمیر ہوا؟
اس حوالے سے کوئی تاریخی دستاویز دستیاب نہیں۔ تاہم اینگلو افغان جنگوں کی وجہ سے 1849 میں جب راولپنڈی میں ہندوستان کی سب سے بڑی چھاؤنی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو اس کی تعمیر برٹش آرمی نے اپنی بیرکوں کے طور پر کی تھی۔
بعد میں یہاں ایک ہوٹل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی حیثیت تبدیل کر دی گئی اور اسے ٹامس چارلز فلیش مین نامی ایک انگریز نے خرید لیا۔
اس کے بارے میں ایک کتاب ’راولپنڈی دی راج ایئرز‘ از علی خان کے صفحہ 75 پر درج ہے کہ وہ راولپنڈی آنے سے پہلے انبالہ میں ایک جنرل مرچنٹ سٹور میں اسسٹنٹ تھے۔ جب وہ یہاں آئے تو کننگ روڈ پرجہاں آج کل فلیش مینز ہوٹل ہے اس کے ساتھ ہی انہوں نے کریانے کی ایک دکان کھول لی جہاں شراب کے علاوہ کشمیری نوادرات بھی بکتے تھے۔
جو سیاح سری نگر نہیں جا سکتے تھے وہ کشمیری نوادرات چارلز فلش منیز سے ہی خرید لیا کرتے تھے۔
برطانوی فوجی انتظامیہ کی آشیر باد سے انہوں نے کنگ روڈ سے مری روڈ کے درمیان جہاں نو ایکڑ سے زیادہ جگہ کو جہاں فوجی بیرکیں تھیں خرید کرہوٹل کی شکل دے دی۔ اس کا پتہ 22 مال روڈ ہوا کرتا تھا اور یہ جگہ اس وقت بھی مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔
مال روڈ کے اس طرف کرکٹ کا میدان تھا۔ دوسری جانب مری روڈ، چرچ آف سکاٹ لینڈ اور سامنے وکٹوریہ بیرکس جنہیں آج پاکستانی فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹرز کہا جاتا ہے۔
مال روڈ پر ملکہ برطانیہ کا ایک بہت بڑا مجسمہ ایستادہ تھا جسے تقسیم کے وقت نقصان پہنچایا گیا اور اسے برٹش ہائی کمیشن منتقل کر دیا گیا تھا۔
تقسیم سے پہلے شمالی ہندوستان اور آج کے پاکستان میں تین بڑے ہوٹل ہوا کرتے تھے۔ لاہور میں فلیٹیز، راولپنڈی میں فلیش مینز اور پشاور میں ڈینز ہوٹل، بلکہ ڈینز ہوٹل پشاور بھی ٹامس چارلز فلیش مینز کے ایک نائب ڈینز نے ہی بنایا تھا۔
راولپنڈی، ناردرن کمانڈ کا ملٹری ہیڈ کوارٹر تھا اس لیے یہاں برطانوی فوجی افسران اور ملٹری کنٹریکٹرز کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔
جو برطانوی اور یورپی سیاح سری نگر جاتے تھے وہ بھی راولپنڈی میں ہی ٹھہرتے تھے اس لیے فلیش مین کا ہوٹل خوب چلا اور ان کا شمار امرا میں ہونے لگا۔ فلیشن مین کے کیرالہ کی بندرگاہ کاشی میں چائے کے باغات بھی تھے وہ سردیاں کاشی میں اور گرمیاں مری میں گزارتے تھے۔
1914 میں انہیں برطانوی حکومت کی جانب سے خطاب ملا جبکہ 1918 میں انہیں انڈین فوج کے اعزازی کیپٹن کا عہدہ دیا گیا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد فلیش مین کے مالی حالات خراب ہو گئے کیونکہ جلیانوالہ باغ کے سانحہ کے بعد پنجاب میں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہو گئی تھی۔ جلیانوالہ باغ پر فائرنگ کا حکم دینے والے جنرل ریجنلڈ ڈائر کے والد ایڈورڈ ڈائر مری بروری کمپنی کے مالک تھے۔ ان کا تعلق بھی واولپنڈی سے تھا، اس لیے راولپنڈی کی حساسیت بڑھ گئی۔
جس کے بعد فلیش مین نے 1919 میں اپنا ہوٹل ایسوسی ایٹڈ ہوٹلز آف انڈیا نامی کمپنی کو بیچ دیا، جس کے مالک موہن سنگھ اوبرائے تھے جو چکوال کے رہنے والے تھے۔
2008 کے ممبئی حملوں میں انہی کا پانچ ستارہ ہوٹل اوبرائے نشانہ بنا تھا۔ ٹامس چارلز فلیش مین واپس برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے ہوٹلوں کی ایک چین خرید لی۔ 1929 میں71 سال کی عمر میں وہ انتقال کر گئے۔
تقسیم کے بعد بھی فلیش مینز1961 تک ایسوسی ایٹڈ ہوٹلز آف انڈیا کے تحت ہی چلتا رہا۔ بعد میں اسے ایسوسی ایٹڈ ہوٹلز آف پاکستان نامی کمپنی میں ضم کر دیا گیا، مگر اس کے اکثریتی شیئرز اوبرائے فیملی کے پاس ہی تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلیش مینز کے علاوہ فلیٹیز لاہور، ڈینز ہوٹل پشاور اور سیسل ہوٹل مری بھی اسی کمپنی کے پاس تھے۔ تاہم 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ان تمام ہوٹلوں کو دشمن کی جائیداد قرار دے کر ضبط کر لیا گیا۔
28 ستمبر 1976 کو فلیش مینز سمیت ان چاروں ہوٹلوں کو پی ٹی ڈی سی کے حوالے کر دیا گیا۔ باقی تینوں ہوٹل 1999 میں پرائیویٹائز کر دیے گئے مگر فلیش مینز ہوٹل کی حیثیت برقرار رہی۔
جب اسلام آباد بن رہا تھا تو صدر ایوب کی کابینہ کے اجلاس بھی یہاں ہوا کرتے تھے۔ بھٹو سمیت تمام وزرا یہیں ٹھہرا کرتے تھے۔ یہاں پی ٹی ڈی سی کا ہیڈ آفس بھی قائم رہا۔ بیرکوں کی طرز پر بنائے گئے اس ہوٹل میں دو بڑے ہال، 73 کمرے اور ایک سوئمنگ پول بھی ہے۔
جہاں قائد اعظم سمیت کئی عظیم ہستیوں نے قیام کیا وہ تاریخی ہوٹل آج مقفل ہے مگر اس کی کھڑکیوں سے اس شاندار ماضی میں آج بھی جھانکا جا سکتا ہے جہاں قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کھڑے ہیں اور پاکستان کی نئی نسل کے ساتھ اس لیے تصویریں بنوا رہے ہیں تاکہ تاریخ و تہذیب کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت جب بھی اس ہوٹل کے مستقبل کا فیصلہ کرے اس منظر نامے کو ضرور سامنے رکھے۔