پاکستان اور بھارت کی آزادی کی تاریخ 15 اگست مقرر تھی جس کا اعلان ماؤنٹ بیٹن نے چار جون کو کیا تھا مگر ہندو جوتشیوں نے اسے منحوس گھڑی قرار دے دیا۔
بنارس اور جنوبی ہند کے جوتشیوں نے فوری طور پر رد عمل دیا کہ 15 اگست اتنا منحوس دن ہے کہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہونے سے بہتر ہو گا کہ ہندوستان مزید ایک دن برطانوی راج کی عمل داری میں گزار دے۔ کلکتہ کے جوتشی سوامی مد مانند نے مؤقف اختیار کیا کہ 15 اگست برج جدی میں آ رہا ہے جس کی خصوصیت انہوں نے یہ بتائی کہ یہ مرکز گریز قوتوں یعنی بٹوارے کے رجحانات کو ہوا دیتا ہے۔
چنانچہ انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھا کہ بھگوان کے لیے ہندوستان کو 15 اگست کو آزادی مت دیں۔ اگر آئندہ سیلاب آئے، خشک سالی ہوئی، قحط پڑا ور خونریزی ہوئی تو یہ محض اس لیے ہو گا کہ ہندوستان ایک ایسی تاریخ کو آزاد ہوا جو ستاروں کے نزدیک منحوس دن تھا۔‘
ماؤنٹ بیٹن اور ہندوستانی رہنماؤں کے لیے مسئلہ بن گیا کہ اب کیا کریں۔ بالآخر جوتشیوں کی ایک جماعت نے ہندوستانی رہنماؤں کو سمجھایا کہ ’15 اگست کے مقابلے میں 14 اگست کو ستاروں کا ملاپ خاصا موافق ہے۔‘ چنانچہ ہندوستانی رہنماؤں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے ایک درمیانی تجویز رکھی کہ انتقال اقتدار 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات کو 12 بج کر ایک منٹ پر کر دیا جائے۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ تجویز منظور کر لی۔ جس کا ذکر وہ برطانوی حکومت کو ارسال کردہ اپنی ہفتہ وار رپورٹ میں اس طرح کرتے ہیں ’مجھے اس بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ مجھے انتقال اقتدار کی تاریخ کا تعین کرتے وقت جوتشیوں سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن خوش قسمتی سے اب یہ معاملہ طے ہو گیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس نصف شب سے پہلے یعنی 14 اگست کی شبھ گھڑی کے اندر اندر ہو جائے گا جبکہ انتقال اقتدار کی رسم عین نصف شب کو ہو گی اور وہ بھی تقریباً شبب گھڑی ہو گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارتی نیتاؤں کی توہم پرستی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے صرف اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اپنی آزادی کی تاریخ کو جوتشیوں کے کہنے پر بدلوایا بلکہ جب 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات کو نہرو کو انتقال اقتدار کی تقریب میں شرکت کے لیے تیار کیا جا رہا تھا تو ان کی رہائش گاہ پر دو معتبر سنیاسی آئے اور انہوں نے ویسی رسوم ادا کیں جیسی ہندوستان میں راجوں اور مہاراجوں کی تاج پوشی کے وقت ادا کی جاتی تھیں۔
انہوں نے نہرو پر دریائے تنجور کا مقدس پانی چھڑکا۔ ان کی پیشانی پر مقدس راکھ ملی، پانچ پاؤں والا بت ان کے بازؤں پر رکھا اور پھر بھگوان کی مقدس چادر پتامبرم کو اس کے گرد لپیٹ دیا۔ دوسری جانب ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد کے باغ میں آگ کا الاؤ روشن کیا گیا تھا جس میں سینکڑوں من گھی جلایا جا رہا تھا اور برہمن اس کے گرد بیٹھے منتر پڑھ رہے تھے۔
وہ مر د اور خواتین جو تھوڑی دیر بعد ہندوستان کے وزیر بننے والے تھے، ایک قطار کی صورت اس آگ کے گرد پھیرے لگا رہے تھے۔ ایک برہمن ان کے اوپر متبرک پانی چھڑکتا جا تا تھا۔ پھر وہ ایک عورت کے قریب رکتے جو ان کے ماتھے پر سرخ رنگ کا تلک لگا دیتی۔
یہ تھا سیکیولر بھارت کا پہلا دن۔ اس کے مقابلے پر کراچی میں اقتدار کی منتقلی پر بالکل مختلف صورت حال دیکھنے کو ملی تھی۔ یہاں نہ تو کوئی مذہبی رسم ادا کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا تاثر دیا گیا کہ جس سے لگے کہ ایک مذہبی ریاست وجود میں آ رہی ہے۔ بلکہ ماؤنٹ بیٹن نے لکھا کہ 13 اگست کی رات کراچی میں جو عشائیہ قائداعظم نے ان کے اعزاز میں دیا اس میں مس فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت مجھے چھیڑتی رہیں کہ میں نے ہندو جوتشیوں کے کہنے پر آزادی کی تقریبات کا وقت بدل ڈالا تھا۔
پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا 10 اگست کا افتتاحی اجلاس، 11 اگست کا پہلا باقاعدہ اجلاس جس سے قائداعظم نے خطاب کیا تھا اور 14 اگست کا اجلاس جس میں ماؤنٹ بیٹن نے تقریر کی تھی ان میں سے کسی اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے نہیں کیا گیا جبکہ شیخ الاسلام مولانا بشیر احمد عثمانی بھی اسمبلی کے اجلاس میں ایک مقتدر رکن کی حیثیت سے بنفس نفیس تشریف فرما تھے۔ ان کے علاوہ مولوی تمیز الدین اور پروفیسر اشتیاق حسین قریشی بھی موجود تھے۔ اسی اسمبلی کا عارضی چیئرمین اور کابینہ کا پہلا وزیر قانون ایک اچھوت ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو بنایا گیا تھا۔
قائد اعظم نے 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی میں پہلے صدر کی حیثیت سے جو خطاب کیا وہ بھی ملک کو ایک سیکیولر بنیادیں فراہم کرتا تھا۔ انہوں نے فرمایا ’خواہ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ ہم اپنی مملکت کا آغاز کسی امتیاز کے ساتھ نہیں کر رہے۔ کسی فرقے، ذات یا عقیدے کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گا۔ ہم اپنے کام کا آغاز اس بنیادی اصول سے کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک ملک کے شہری ہیں۔
’ہم اس اصول کو ایک نصب العین کے طور پر ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گےاور آپ دیکھیں گے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے کہ وہ ایک قوم کے شہری ہیں۔‘