چھ اگست کو دنیا کی تاریخ کے بھیانک ترین واقعات میں سے ایک پیش آیا جب ایک امریکی ہوا باز پال ٹیبٹس نے اپنے بی 29 بمبار سے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ’لٹل بوائے‘ نامی ایٹم بم گرا کر سوا لاکھ سے زیادہ شہریوں کو پل بھر میں بھسم کر ڈالا۔ تین دن بعد ناگاساکی میں یہی انسانیت کش کھیل دہرایا گیا۔
ان بموں کی تاب نہ لا کر 15 اگست 1945 کو جاپان کے بادشاہ ہیروہیٹو نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا اور یوں دنیا کی سب سے خونریز جنگ کا خاتمہ ہوا۔ یہ دن اس لیے تاریخ کا سنگِ میل ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اسی دن سے برصغیر کی تاریخ یوں جڑ گئی ہے کہ اس کے لگائے ہوئے زخموں سے آج تک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔
دو سال بعد اسی دن کا برصغیر کی آزادی کچھ انہونی سی لگتی ہے کیوں کہ برطانوی وزیرِ اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے 20 فروری 1947 کو تقریر کرتے ہوئے اس کے لیے تین جولائی 1948 کی حتمی تاریخ مقرر کی تھی اور اس وقت عام طور پر خیال کیا جا رہا تھا کہ اس پر عمل نہیں ہو پائے گا اور تاریخ آگے چلی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ 37 کروڑ آبادی، 44 لاکھ مربع میٹر رقبے، بھانت بھانت کی قوموں، مذہبوں، نسلوں اور ذاتوں اور پانچ سو سے اوپر خود مختار اور نیم خودمختار ریاستوں پر مشتمل اس خطے کو صرف 17 ماہ میں تقسیم کرنا کوئی خالہ جی تو کیا ماموں جی کا بھی گھر نہیں ہے (ایک ایسے ہی ماموں کا ذکر تھوڑی دیر بعد میں)۔
لیکن بجائے اس کے یہ معاملہ سال دو سال تاخیر کا شکار ہوتا، الٹا اسے دس ماہ آگے کر کے یہ برِ عظیم عجیب افراتفری اور انتشار کے عالم میں دو حصوں میں بانٹ دیا گیا اور اس کے نتیجے میں درجنوں لاکھوں انسانوں نے جو قیامت جھیلی، وہ اپنی ہولناکی میں سانحۂ ہیروشیما اور ناگاساکی سے کم نہیں ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے لیے 15 اگست کا دن کیسے مقرر ہوا؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم چلتے ہیں ریئر ایڈمرل (ریٹائرڈ) لوئس فرانسس ایلبرٹ وکٹر نکولس کی طرف، جنہیں ہم لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام سے جانتے ہیں اور آج جن کے قتل کی 40ویں برسی ہے۔
رنگیلا ایڈمرل
ہندوستان کا آخری وائسرائے بننے سے قبل موصوف کی وجہ شہرت یہ تھی کہ دوسری عالمگیر جنگ کے آخری لمحات میں انہیں برطانوی بحریہ کی جنوب مشرقی ایشیا کی کمان کا سپریم الائیڈ کمانڈر بنا دیا گیا۔
انہوں نے اس شان سے جنگ لڑی کہ ان کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ ڈکوٹا جہاز کے اندر نفیس سفید چمڑے کی پیڈنگ کروائی گئی اور اس کے اندر آرام دہ صوفے نصب کیے گئے جو کھل کر پلنگ بن جاتے تھے۔ جہاز کی الماریاں اعلیٰ کاک ٹیل کی بوتلوں سے رچی ہوئی تھیں اور ماؤنٹ بیٹن نے اپنے لیے حجام بھی لندن سے منگوا رکھا تھا۔
اگر یہ پڑھ کر آپ کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ یہ شخص دنیا بھر میں لڑی جانے والی ہولناک ترین جنگ کا سپہ سالار ہے یا کوئی عیاش شہزادہ، تو آپ کا خیال درست ہو گا۔ ماؤنٹ بیٹن سچی مچی والے شہزادے تھے اس وقت کے برطانوی شہنشاہ جارج ششم کے کزن تھے!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم یہ الزام تو نہیں لگانا چاہتے کہ اس قدر اہم اور نازک عہدے پر ان کی تقرری شاہی خاندان سے تعلق کی بنا پر ہوئی، البتہ جب ہم ان کا جنگی ریکارڈ دیکھتے ہیں تو کچھ کچھ شبہ سا ضرور ہونے لگتا ہے۔
مثال کے طور پر ملاحظہ ہو کہ سپریم کمانڈر کے عہدے پر تعیناتی سے پہلے ماؤنٹ بیٹن نے اپنے جنگی جہاز ایچ ایم ایس کیلی خود برطانیہ کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں میں چلوا دیا تھا۔ ایک اور واقعے میں انہوں نے اتحادی فوج کے چھ ہزار سے زائد سپاہیوں کو فرانس میں آپریشن ڈیپ کے نام سے ایک ایسی ’کمانڈو ایکشن‘ مہم میں جھونک دیا جس میں آدھے سے زیادہ جرمنوں کا نشانہ بن گئے، بقیہ کو وہاں سے بدترین شکست کھا کر بھاگنا پڑا، اور مہم کا ایک ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا۔
تو یہی وہ شہزادہ ماؤنٹ بیٹن تھے جن کی ’ولولہ انگیز قیادت‘ کی ’تاب نہ لاتے ہوئے‘ جاپانیوں نے 15 اگست 1945 کو گھٹنے ٹیک دیے۔ یہ الگ بات کہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جاپانیوں نے برطانوی بحریہ نہیں، بلکہ امریکہ کے ایٹم بموں کے آگے سر جھکایا تھا۔
لیکن لارڈ صاحب نے یہ باریک نکتہ نظر انداز کرتے ہوئے نہ صرف اس فتح کا سہرا اٹھا کر اپنے ہاتھوں اپنے سر پر باندھا بلکہ اس دن کو بھی اپنے نام کر لیا اور جب ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے یہی تاریخ مقرر کی گئی۔
جوتشی سراسیمہ ہو گئے
جب اعلان ہوا کہ ہندوستان 15 اگست کو آزاد ہو گا تو اس پر نہ صرف ملک بھر بلکہ برطانیہ تک میں کھلبلی مچ گئی کیوں کہ ماؤنٹ بیٹن نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے عملے، کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں، برطانوی وزیرِ اعظم ایٹلی تو کجا، اپنے کزن بادشاہ جارج سے بھی مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
ہندوستانی رہنما تو پھر بھی خاموش ہو گئے کہ چلو انگریز سے جس قدر جلد جان چھوٹے اتنا ہی بہتر ہے، لیکن ہندو پنڈتوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 15 اگست کا دن جوتش کی رو سے منحوس ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندووں کی بڑی تعداد شبھ گھڑی کا زائچہ نکالے بغیر نہیں کوئی کام نہیں کرتی تو ملک کا وجود میں آنا کیسے برداشت کر لیتی؟ لیکن اڑچن یہ تھی کہ دوسری طرف ماؤنٹ بیٹن بھی 15 اگست سے ایک انچ ادھر ادھر ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔
آخر فیصلہ یہ ہوا کہ نہ ہماری نہ تمہاری، تقسیم 15 اگست ہی کو ہو لیکن اس کا اعلان رات کے 12 بجے کیا جائے، کیوں کہ ہندو کیلنڈر کے مطابق دن کا آغاز رات 12 بجے نہیں بلکہ سورج چڑھنے سے ہوتا ہے اور رات بھر پچھلی تاریخ میں گنی جاتی ہے۔
سو 15 اگست کو رات 12 بجے دنیا کے نقشے پر دو نئے ملک ابھرے، پاکستان اور بھارت، مگر اس انتشار، جلدبازی اور افراتفری سے کیے گئے انتقالِ اقتدار سے وہ خون خرابہ ہوا جو 20ویں صدی جیسی خونی صدی کے دامن پر بھی داغ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس دوران پانچ ہیروشیم اور ناگاساکی پیش آئے اور دس لاکھ کے لگ بھگ لوگ مارے گئے۔
اسی دوران ایک کروڑ کے قریب لوگ بےگھر ہوئے جو اب تک انسانی تاریخ کا بدنما ریکارڈ ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ماؤنٹ بیٹن کو 15 اگست کو ہندوستان تقسیم کرنے کا خبط نہ ہوتا، اور وہ اصل منصوبے کے مطابق 1948 کے وسط میں جا کر تھوڑی زیادہ منصوبہ بندی اور ٹھنڈے دل و دماغ سے ہندوستان کو آزاد کرتے تو شاید اتنی تباہی نہ مچتی۔
لیکن بعض لوگ ایک اور نظریہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک تقسیم کرنے کی تاریخ دس ماہ آگے کرنے کے فیصلے کے پیچھے ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کا نہرو سے سکینڈل تھا اور وہ جلد از جلد یہ کام نمٹا کر واپس انگلستان لوٹنا چاہتے تھے۔
ہم نیچے چل کر اس سکینڈل کا تفصیل سے جائزہ لیں گے، اس سے پہلے اس بات کا جواب دینا ضروری ہے کہ اس قدر اتاولی، ہنگامہ خیز اور لاابالی شخصیت کے مالک ماؤنٹ بیٹن تھے کون؟
پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں ہلا
لوئس فرانسس ایلبرٹ وکٹر نکولس 25 جون 1900 کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ ملکہ وکٹوریہ کے نواسے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کا نک نیم ’ڈکی!‘ ان کی نانی ملکہ وکٹوریہ ہی نے رکھا تھا۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان کا خاندانی نام ماؤنٹ بیٹن کیسے پڑا کیوں کہ جب وہ پیدا ہوئے تو ان کی شاہی خاندانی شاخ کا نام بیٹن برگ تھا، لیکن جرمنی کے خلاف لڑتے لڑتے انگریز عوام کے اندر جرمن دشمنوں کی لہر اتنی اونچی ہوئی کہ شاہی خاندان نے ہوا کا رخ بھانپتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ناموں کے جرمن حصے بدل دیے جائیں، چنانچہ بیٹن برگ بھی ماؤنٹ بیٹن ہو گئے۔ وجہ یہ کہ برگ جرمن میں ماؤنٹ یعنی پہاڑ ہی کو کہتے ہیں۔ گویا پہاڑ اپنی جگہ پر رہا، لفظ بدل گیا۔
نوجوان ماؤنٹ بیٹن نے رائل نیول کالج میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی پوسٹنگ 16 برس کی عمر میں ہوئی جب انہیں پہلی عالمگیر جنگ کے عین درمیان میں جنگی جہاز ایچ ایس لائن پر تعینات کیا گیا۔
جنگ تو جلد ہی ختم ہو گئی لیکن نوجوان شہزادے کو نت نئی ٹیکنالوجی کا شوق تھا اس لیے انہوں نے بحریہ میں رہتے ہوئے الیکٹرانکس کے نئے نئے متعارف ہونے والے شعبے کا علم حاصل کیا اور انسٹی ٹیوشن آف الیکٹریکل انجینیئرز کے رکن بن گئے۔
انہوں نے نیول انجینیئرنگ میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ جہاز رانی کی ایک ایجاد کے عوض انہیں ایک پیٹنٹ بھی مل گیا۔
چوڑے کندھے، بھاری ذمہ داری
اسی دوران یورپ دوسری عالمگیر جنگِ کے شعلوں میں گھر گیا اور ماؤنٹ بیٹن بحریہ کے افسر کی حیثیت سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے گئے، جن کا اختتام 15 اگست کو جاپان کے ہتھیار ڈالنے سے ہوا۔
ادھر تو یہ کچھ ہو رہا تھا، ادھر ہندوستان میں بھی شدید بےچینی چھائی تھی اور برطانوی راج کے ’تاج کا ہیرا‘ اس تاج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بےقرار تھا۔ اس وقت یہاں کے وائسرائے لارڈ ویول تھے، لیکن جب وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کے فارمولے پر رضامند کرنے میں ناکام رہے تو وزیرِ اعظم ایٹلی نے ماؤنٹ بیٹن کو یہ بھاری ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کر دیا۔
تقسیم کا کام جیسے تیسے نمٹانے کے بعد لارڈ صاحب کچھ عرصہ انڈیا کے گورنر جنرل رہے، پھر واپس انگلستان چلے گئے۔ وہیں 27 اگست 1979 کو آئرش رپبلک آرمی کے دہشت گردوں نے ان کی کشتی کو بم سے اڑا کر ان کی زندگی کا خاتمہ کر ڈالا۔
لارڈ کی زندگی تو ختم ہو گئی لیکن ہماری کہانی ابھی نامکمل ہے کیوں کہ ابھی ہم نے ایک شخصیت کا تفصیلی ذکر نہیں کیا۔ یہ شخصیت ہیں ایڈوینا سنتھیا اینٹ، المعروب بہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن۔
انگلستان کی حسین ترین خاتون
ایڈوینا کا تعلق شاہی خاندان سے تو نہیں البتہ ایک خاصے امیر خانوادے سے ضرور تھا اور وہ لڑکپن ہی سے لاکھوں کی جائیداد کی وارث بن گئی تھیں۔ ایک زمانے میں ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ انگلستان کی حسین ترین خاتون ہیں۔ ان کی 1920 میں اپنے ہم عمر ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات ہوئی جو دو سال بعد شادی پر منتج ہوئی۔
یہ شادی کس طرح کی شادی تھی، اس بارے میں ہم کیا کہیں، خود ماؤنٹ بیٹن کی زبانی سنیے: ’ایڈوینا اور میں نے اپنی شادی شدہ زندگی کا بڑا حصہ دوسروں کی خواب گاہوں میں گزارا۔‘
انگریزی اصطلاح میں اس شادی کو ’اوپن میرج‘ یا ’کھلی شادی‘ کہا جاتا ہے۔
اس جوڑے کی بیٹی پامیلا نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ان کی والدہ ’مرد خور‘ تھیں اور ان کی زندگی میں طرح طرح کے ’انکل‘ ایک قطار کی صورت آتے اور جاتے رہے۔
نہرو ماموں
ہم باقیوں کا ذکر تو نہیں کر سکتے، البتہ ان میں سے ایک انکل پر تھوڑی روشنی ڈالنا ضروری ہے، اور وہ انکل ہیں پنڈت جواہر لال نہرو جنہیں خود پامیلا ’ماموں‘ (mamu) کہتی تھیں، لیکن کچھ عرصے بعد انہوں نے نہرو کو ماموں کہنا ترک کر دیا۔ شاید انہیں احساس ہو گیا ہو کہ نہرو خود ماموں نہیں ہیں بلکہ کسی اور ماموں بنا رہے ہیں۔
پامیلا نے لکھا ہے کہ نہرو اور ان کی والدہ کی پہلی ملاقات سنگاپور میں اس وقت ہوئی تھی جب ماؤنٹ بیٹن ابھی وائسرائے نہیں بنے تھے۔ اس موقعے پر ایک بےحد فلمی سین پیش آیا۔ ہوا یوں کہ جب نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی ملاقات ہوئی تو نہرو کو دیکھنے کے لیے آئے ہوئے ہندوستانیوں کے بڑے مجمعے میں بھگدڑ مچ گئی اور ایڈوینا لوگوں میں گھر کر رہ گئیں۔ خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں وہ کچلی نہ جائیں۔
اس موقعے پر ہندوستان کے کرشماتی رہنما نہرو بالی وڈ فلموں کے ڈیشنگ ہیرو کی مانند آگے بڑھے اور ایڈوینا کو ہجوم کے چنگل سے سلامت نکال لائے۔
پامیلا کہتی ہیں کہ ان کی والدہ یہ کہانی بیان کرتے نہیں تھکتی تھیں۔
تاہم پامیلا کا اصرار ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے عشق میں بری طرح گرفتار تو ضرور تھے، اور دونوں کے درمیان 1960، یعنی ایڈوینا کی موت تک خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا، لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھی۔
پامیلا کا تجزیہ ہے کہ نہرو رنڈوے ہونے کی وجہ سے خود کو بےحد تنہا محسوس کرتے تھے، جب کہ ایڈوینا بھی اپنے خاوند کے رنگا رنگ افیئرز اور مصروفیات کی وجہ سے ایک اجنبی ملک میں اداسی کا شکار تھیں، اس لیے دونوں ایک دوسرے کی طرف مقناطیس کی طرح کھنچے چلے آئے۔
ایڈوینا نہرو کے نام ایک خط میں لکھتی ہیں: ’ہم نے جو کیا یا محسوس کیا، وہ کبھی بھی تم اور تمہارے کام، اور میرے اور میرے کام کے درمیان حائل نہیں ہو پائے گا۔ کیوں کہ اس سے ہر شے تباہ ہو جائے گی۔‘
جب کہ نہرو نے ایک خط میں ایڈوینا کو لکھا: ’اچانک مجھے احساس ہوا (اور شاید تمہیں بھی ہوا ہو) کہ ہمارے درمیان ایک گہری وابستگی موجود ہے، ایک ایسی طاقت جو قابو سے باہر ہے جو ہمیں ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہی ہے۔ مجھے اس طاقت کا ہلکا سا احساس تھا اور اس نے مجھے پوری طرح بےبس کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اس نئی دریافت نے مجھے سرشار بھی کر دیا۔ ہم زیادہ قریب آ کر گفتگو کرنے لگے جیسے ہمارے درمیان سے کوئی پردہ اٹھ گیا ہو اور ہم خوف یا خجالت کے بغیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک سکتے تھے۔‘
تاہم پامیلا کے مطابق یہ محبت افلاطونی ہی رہی کیوں کہ نہرو بےحد عزت دار انسان تھے، اس لیے انہوں نے قدم آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی، ورنہ ایڈوینا تو اوپن میرج کی وجہ سے تیار ہی تھیں۔
رائنن جینکنز تسانگ نے ایڈوینا کی سوانحِ حیات لکھی ہے۔ اس میں وہ ان دونوں کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ایڈوینا اور جواہر ایک دوسرے میں بےحد دلچسپی لیتے تھے۔۔۔ یہ پیار اور دوستی کا معجزہ ہے۔‘ تسانگ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں کے تعلقات جسمانی حد تک نہیں پہنچے۔
اکیلی رات کا تنہا مہمان
لیکن دوسری طرف خوشونت سنگھ نے اپنی آپ بیتی ’ٹروتھ، لوو اینڈ اے لٹل میلس‘ میں کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب نہرو نے بطور وزیرِ اعظم پہلی بار انگلستان کا دورہ کیا اس وقت خوشونت سنگھ برطانیہ میں بھارت کے پریس اتاشی تھے۔ جب نہرو کا جہاز لندن میں اترا تو آدھی رات کا وقت تھا۔ بھارتی سفارتی عملے کے ارکان ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ نہرو یہ دیکھ کر خوش تو ہوئے مگر مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ گئے کہ آپ لوگ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں، جائیں اپنے گھروں کو اور آرام کریں۔
خوشونت لکھتے ہیں کہ اگلے دن صبح سویرے ’میں نے دیکھا کہ اخبار ’دی ڈیلی ہیرلڈ‘ نے نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کی ایک بڑی تصویر چھاپی ہے جس میں لیڈی نے شب خوابی کا لباس پہن رکھا ہے اور وہ نہرو کے لیے دروازہ کھول رہی ہیں۔ نیچے کیپشن میں لکھا ہے: ’لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا رات کا مہمان۔‘ اس کے علاوہ اخبار نے یہ اطلاع دینا بھی ضروری سمجھا تھا کہ لارڈ صاحب اس وقت لندن میں موجود نہیں ہیں۔
’ہمارے وزیرِ اعظم کے لیڈی ایڈوینا کے ساتھ تعلقات سکینڈل کا درجہ اختیار کر گئے۔ ہیرلڈ کے فوٹوگرافر نے انہیں رنگے ہاتھوں نہیں تو کم از کم ہاتھ رنگنے کی تیاری کرتے ہوئے ضرور پکڑ لیا تھا۔‘
یہ واقعہ برطانوی اخباروں نے خوب نمک مرچ لگا کر اچھالا، اور وزیرِ اعظم ہند کا دورہ اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ خوشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ بھارتی ہائی کمشنر نے مجھے کہا کہ اس واقعے کی وجہ سے نہرو تم پر سخت برہم ہیں۔ ’میں نے کہا، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ مجھے کیا پتہ تھا کہ نہرو رات کو اپنے ہوٹل جانے کی بجائے ماؤنٹ بیٹن کے گھر چلے جائیں گے؟‘
بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی آزادی کی تاریخ اس لیے دس ماہ آگے کر دی کہ انہیں نہرو اور اپنی بیوی کے تعلقات کا پتہ چل گیا تھا اور وہ جلد از جلد کام نمٹانا چاہتے تھے۔
لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی اس وقت نہرو کوئی کھلنڈرے نوجوان نہیں، بلکہ 57 برس کے پیٹے میں تھے، جب کہ دوسری طرف ایڈوینا کی عمر بھی 47 برس تک پہنچ گئی تھی۔
پکی عمر کے عشق کی یہ بیل منڈھے چڑھ سکی یا نہیں، اس کا علم تو ان دونوں ہی کو ہو گا، البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ رنگین جوڑی کچھ ایسی کہانیاں ضرور دے گئی جو آنے والی کئی برسوں تک برصغیر کے اربوں لوگوں کی زبانوں پر گردش کرتی رہیں گی۔
اور اگر ماؤنٹ بیٹن کے حسد والے نظریے کو مان لیا جائے تو قیاس آرائی کی جا سکتی کہ اگر یہ رومان پروان نہ چڑھتا تو ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے دس بم ہندوستان پاکستان کی سرحدوں پر نہ پھٹتے۔