یہاں تک کہ بورس جانسن کی طرح مثبت سوچ والے کسی شخص کے لیے بھی، کوپ 26 میں غیر معمولی پیش رفت کا کم امکان تھوڑا سا پریشان کن ہوسکتا ہے۔
درحقیقت وزیر اعظم نے اپنے بچوں کی ڈاؤننگ سٹریٹ پریس کانفرنس میں اعتراف کیا جہاں انہوں نے کہا کہ وہ ’بہت پریشان‘ ہیں کہ یہ سب خراب ہو سکتا ہے اور یہ مشکل ہے کہ اس سے ’وہ معاہدے‘ تیار ہوں گے جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ روایتی جانسن کی خوش گوار گفتگو نہیں تھی۔
یقینی طور پر، جیسے جیسے ناکامی کی تیاریاں جاری ہیں، گریٹا تھونبرگ کی پیش گوئیوں سے طویل عرصے سے واقف 12 سال سے کم عمر کی ایک اسمبلی کو دی گئی ایسی وارننگ شاید نرم تھیں۔ تاہم یہ احساس مشکل ہے کہ ماحولیات کے اجلاس سے قبل سب کچھ بہتر انداز سے ہوگیا۔
کم از کم برطانیہ کی حکومت کے لیے سب سے بڑا دھچکا یقینا اس اعلان سے لگا کہ ملکہ ذاتی طور پر شرکت کرنے کی بجائے ویڈیو کے ذریعے افتتاحی تقریب میں اپنی مبارک باد بھیجیں گی۔
ملکہ کی قیادت میں شاہی خاندان جون میں کورنوال شہر میں ہونے والے جی سیون سربراہ اجلاس میں آمد ایک اعلیٰ بات تھی اور واضح طور پر گلاسگو میں اسے دہرانے سے امیدیں وابستہ تھیں جہاں تقریباً 200 ممالک کے نمائندے موجود ہوں گے۔
لیکن یہ بہت بڑا بین الاقوامی اجتماع، جسے برطانیہ کے لیے بریگزٹ کے پہلے سال میں ’گلوبل برطانیہ‘ دکھانے کے دوسرے موقع کے طور پر دیکھا جا رہا تھا جو ممکنہ طور پر 2015 کے پیرس ماحولیات کے سربراہ اجلاس کو پیچھے چھوڑ سکتا تھا۔
یہ پہلے ہی اپنی کچھ چمک کھو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر دو ’بڑے کھلاڑیوں‘ کی اعلی سطح پر نمائندگی نہیں کی جا رہی ہے جن کے بغیر کوئی بھی معاہدہ شدید کمزور نظر آئے گا۔
نہ تو چین کے شی جن پنگ اور نہ ہی روس کے ولادی میر پوتن آ رہے ہیں۔
سرکاری طور پر وہ کوویڈ-19 احتیاطی تدابیر کا حوالہ دیتے ہیں اور دونوں رہنما وبا کی شدت کو تسلیم کیے جانے کے بعد سے سفر کے بارے میں محتاط ہیں۔
لیکن ان کی عدم موجودگی اور جو بائیڈن، باراک اوباما، ایمانوئل میکروں اور انگیلا میرکل (اب بھی جرمنی کی چانسلر، جب تک ایک نیا اتحاد تشکیل نہیں پاتا) کی موجودگی اس اجتماع کو ضرورت سے زیادہ صنعتی شمال کی طرف زیادہ جھکا دکھائے گی۔ اور اس طرح کے اجتماعات میں موجودگی اہمیت رکھتی ہیں۔
یہ ہمیں سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے گلاسگو کے انتخاب کی جانب لاتا ہے۔ میں گلاسگو کے لیے بڑا پرجوش ہوں۔
لیکن برطانیہ کے بڑے بین الاقوامی اجتماعات کی میزبانی کے تمام تجربے کے باوجود اور اگرچہ وبا کی وجہ سے کوپ 26 کو ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا شاید اس بار مناسب ہوم ورک نہیں کیا گیا۔
مجھے رہائشی مقامات کی قلت محسوس ہوتی ہے، ایسی بڑی کانفرنس کی وجہ سے ٹریفک کے اضافی بوجھ سے نمٹنے کے لیے دو ہفتے طویل وقت ہے، چاہے اب ٹرانسپورٹ ہڑتال ختم بھی کر دی گئی ہو۔
لیکن ایڈنبرا اور ویسٹ منسٹر میں ایس این پی حکومت کے درمیان کشیدگی کے پس منظر میں، جس کا مطلب ہے کہ دونوں کامیابی کی صورت میں دعوے دار ہوں گے (یا ناکامی کی صورت میں ایک دوسرے پر ملبہ پھینکیں گے)، تیاریوں کو پیچیدہ بناتی ہیں اور شاید اچھا شگون نہیں ہیں۔
کوپ 26 کے آغاز سے قبل ماحول بین الاقوامی اور برطانیہ کے اندر اختلافات کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یورپ میں گیس کی قلت کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ الزامات لگائے گئے ہیں کہ روس بڑے سپلائر کی حیثیت سے مارکیٹ میں دھاندلی کر رہا ہے۔
لیکن روس سے مزید گیس کے مطالبے کے درمیان واضح تضاد جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نئی نورڈسٹریم-2 پائپ لائن کے کھلنے کو روکنے کی کوشش کرنا بھی اچھا نہیں ہے جیسا کہ کچھ ممالک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جوگلاسگو میں ہم آہنگی سے بات چیت کے لیے اچھا اشارہ نہیں ہے۔
دریں اثنا، برطانیہ میں ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی ڈی کاربنائزنگ شفٹ کا بوجھ نہ صرف صارفین پر غیر متناسب طور پر پڑے گا بلکہ امیر اور غریب کے درمیان فرق بھی بڑھ جائے گا-
چاہے وہ الیکٹرک کاروں کی جانب جانا ہو یا گھریلو ہیٹنگ کے لیے مہنگی اور اب بھی بڑی حد تک غیر آزمودہ الیکٹرک پمپس، یا گیس کی قیمتوں میں اضافہ جو توانائی مارکیٹ کے ناقص ضابطے کی وجہ سے برطانیہ کے صارفین کے لیے مزید بڑھ گیا ہے۔
دوسری طرف بہتر انسولیشن اور زیادہ موثر ہیٹنگ کے لیے عمارتوں کے بہتر معیار مستقبل قریب میں کہیں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ کاربن کی مقدار میں کمی پر فخر کرتے ہوئے برطانیہ نے اپنے ارادوں کے بارے میں کچھ بہت ملے جلے پیغامات بھی بھیجے ہیں۔
اس نے پیرس سربراہ اجلاس کے بعد ہیتھرو اور سٹانسٹڈ کے دو بڑے ہوائی اڈوں کی توسیع کی منظوری دے دی ہے۔
ایک وزیر نے کہا کہ کمبریا میں کوئلے کی ایک نئی کان کا منصوبہ ہے جس کا عالمی منصوبے پر ’غیر معمولی اثر‘ پڑے گا اور چانسلر رشی سنک نے ابھی کم فاصلے کی گھریلو پروازوں کے لیے ٹیکس میں کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔
یہ تفصیل ہو سکتی ہے، لیکن تفصیلات بھی اشارے دیتی ہیں، خاص طور پر اگر وہ اجلاس کے میزبان کی جانب سے ملیں۔
اس طرح کے ملے جلے پیغامات کو منظم مواصلات سے روکا جاسکتا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہاں بھی خرابیاں ہوئی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ڈاؤننگ سٹریٹ کی ترجمان کے طور پر تقرری کے بعد کوپ 26 کی ترجمان ایلیگرا سٹریٹن کو ایک طرح کے انعام کے طور پر یہ ذمہ داری دی گئی ہے۔
اس کے بعد سے، وہ بہت کم دیکھی یا سنی گئی ہیں - اگرچہ بلاشبہ یہ صورت حال اگلے ہفتے تبدیل ہو جائے گی۔
کوپ 26 کے صدر آلوک شرما نے بھی اسے کم پروفائل قرار دیا ہے، خاص طور پر جب یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ کتنے فضائی سفر ریکارڈ کر رہے تھے جبکہ ملک کے باقی حصوں کو بند کر دیا گیا تھا۔
اب خطرہ یہ ہے کہ جیسے جیسے یہ اجتماع خود برطانیہ کے ایجنڈے پر حاوی ہونا شروع ہوگا، اسے ایک جمبوری کی طرح دیکھا جائے گا، چاہے بات کتنی ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو، جس پر ٹیکس دہندگان کی بڑی رقم ضائع کی جا رہی ہے (جس میں بہت زیادہ کاربن بھی شامل ہے)۔ اسے زوم پر زیادہ پائیدار طریقے سے منعقد کیا جاسکتا تھا۔
تمام منفی تاثرات کے برخلاف یہ بھی دلیل دی جا سکتی ہے کہ پیرس ہمیشہ عمل درآمد کے تناظر میں ایک بہت مشکل بات تھی نہ صرف فرانس اور اس کی سفارتی فطرت کی مکمل تیاریوں کی باوجود بلکہ اس لیے کہ عمل درآمد جو گلاسگو کا بڑا مقصد ہے، پیرس میں کیے گئے ابتدائی وعدوں کو حاصل کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
ملکہ وہاں نہیں ہوگی، لیکن شہزادہ چارلس موجود ہوں گے اور وہ ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے ماحول کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا ہے۔
جہاں تک دیگر دو بڑے غیر حاضر رہنما شی اور پیوتن کا تعلق ہے تو یہ ٹھوس سے زیادہ علامتی ہو سکتا ہے کیونکہ دونوں اعلیٰ سطحی ایلچی بھیجیں گے چاہے کچھ فیصلے رہنماؤں نے ہی کرنے ہوں گے۔
یہ بھی کہنا پڑے گا کہ برطانیہ کوئی بات پیش کرنے میں بہت اچھا ہے اور وزرا بہت مہارت سے جو بھی نتیجہ اخذ کیا جائے گا اس کو بہترین ممکنہ سپن دیں گے۔
جب تک کوئی سنگین عوامی تصادم نہیں ہوتا (اور ڈونالڈ ٹرمپ کے بغیر امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں) شاید کوپ 26 کو کامیاب قرار دینے کے امکانات بڑھائے جاسکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کس حد تک برطانیہ کے عوام کو قائل کرسکے گا یا کم از کم گلاسگو کے شہریوں کو کہ یہ سب ضروری تھا ایک اور معاملہ ہے۔
تاہم میں صرف یہ سوچتی ہوں کہ کیا کچھ اور مثبت پیغامات نہ صرف میزبان ملک کے عوام کے لیے ماحول کی تباہی کے مسلسل شور سے زیادہ متاثر کن ہو سکتے ہیں۔
کچھ لوگ دنیا کے ان حصوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں گرمی قلیل مدتی فوائد فراہم کر سکتی ہے۔ لیکن سچ میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسپریشن ایک بہتر محرک ہوسکتی ہے۔
اس ہفتے کے اوائل میں چینل فور نے اپنے پورے گھنٹے کے نیوز پروگرام کو براعظم کے لحاظ سے وقف کر دیا تھا۔
بدترین حالات کے لیے تیاری پکڑیں، لیکن بہتری کی تمام امیدوں کو ترک نہ کریں- یہ لوگوں اور ممالک کو عمل کرنے پر آمادہ کرنے کا ایک زیادہ موثر طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ شاید بورس کے نقطہ نظر کے قریب ہے؟