انڈیا میں ایک بار پھر غیرمعمولی طور پر موسم گرما جلدی آ رہا ہے، اور ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ مارچ مہینے میں شدید گرمی پڑنے کا امکان ہے، جس کا شمار ریکارڈ پر موجود گرم ترین مہینوں میں ہو سکتا ہے۔
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ انڈیا کے وسطی اور شمالی علاقوں، جہاں گندم کی بڑے پیمانے پر کاشت ہوتی ہے، وہاں درجہ حرارت معمول سے چھ ڈگری سیلسیس زیادہ ہو سکتا ہے۔
انڈین محکمہ موسمیات کے ایک سینئر اہلکار نے، جو سرکاری اعلان سے قبل اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا: مارچ اس سال غیرمعمولی طور پر گرم ہو گا۔ پورے مہینے میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہے گا۔‘
درجہ حرارت میں یہ اچانک اور غیر متوقع اضافہ، جو وقت سے پہلے ہی شدت اختیار کر رہا ہے، انڈیا کی اہم زرعی اجناس، خاص طور پر گندم کی فصل، کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ملک پہلے ہی مسلسل تین سال تک گندم کی کم پیداوار کا سامنا کر چکا ہے۔
اہلکار کا کہنا تھا: ’مارچ کا موسم گندم، چنے اور سرسوں جیسی فصلوں کے لیے سازگار نہیں ہوگا۔ ان فصلوں کو شدید گرمی سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔‘
انڈیا دنیا میں گندم پیدا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، لیکن لگاتار شدید گرمی کے باعث پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے حکومت کو 2022 میں گندم کی برآمدات پر پابندی لگانی پڑی تاکہ ملک میں خوراک کی سپلائی کو محفوظ رکھا جا سکے، جس کے نتیجے میں عالمی گندم کی منڈی متاثر ہوئی۔
اگر 2025 میں بھی فصل کی پیداوار کم رہی تو حکومت کو گندم کی درآمدات پر عائد 40 فیصد ٹیکس کو کم یا مکمل طور پر ختم کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں انڈیا کو مہنگی درآمدات پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس وقت عالمی غذائی اجناس کی قیمتیں بھی غیر مستحکم ہیں، جو معیشت پر مزید دباؤ ڈال سکتی ہیں۔
گندم کو اکتوبر سے دسمبر کے دوران بویا جاتا ہے اور ٹھنڈے موسم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ صحیح طریقے سے بڑھ سکے۔ اگر درجہ حرارت جلدی بڑھنا شروع ہو جائے، تو گندم کے دانے چھوٹے اور خشک ہو جاتے ہیں، اور وقت سے پہلے پک جاتے ہیں، جس سے پیداوار کم ہو جاتی ہے۔
اس صورت حال کے اثرات پہلے ہی دیکھنے میں آ رہے ہیں، کیونکہ ملک میں گندم کی قیمتیں ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہیں، کیونکہ ملکی ذخائر کم ہو رہے ہیں۔
یہ ہیٹ ویو اس سال غیر معمولی طور پر جلدی شروع ہو گئی، اور انڈیا کے مغربی ساحلی علاقوں جیسے ممبئی، گوا، مہاراشٹر، گجرات، اور کرناٹک میں فروری میں ہی درجہ حرارت انتہائی زیادہ ریکارڈ کیا گیا، جو عموماً ایک معتدل درجہ حرارت والا مہینہ ہوتا ہے۔
26 فروری کو ممبئی میں درجہ حرارت 38.7 ڈگری سیلسیس گریڈ تک پہنچ گیا، جو معمول سے 5.9 ڈگری زیادہ تھا، جس کی وجہ سے موسم کے ماہرین نے ابتدائی ہیٹ ویو وارننگ جاری کی۔ دیگر ساحلی علاقوں میں بھی درجہ حرارت 37 ڈگری سے تجاوز کر گیا، جو ہیٹ ویو کے اعلان کے لیے مقرر کردہ حد کو پار کر گیا۔
انڈیا میں ہیٹ ویوز عام طور پر مارچ سے جون کے درمیان آتی ہیں، لیکن عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے یہ رجحان بدل رہا ہے، اور شدید گرمی وقت سے پہلے اور زیادہ دیر تک برقرار رہنے لگی ہے۔
گذشتہ سال، دہلی اور ملحقہ شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا تھا، اور انڈیا میں ہیٹ سٹروک کے 40 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
موسمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کی ہیٹ ویو کی وجہ انتہائی خشک سردی کا موسم ہے، جس میں کئی ریاستوں میں شدید بارشوں کی کمی دیکھی گئی۔
گجرات اور گوا میں جنوری سے فروری کے دوران بارش بالکل نہیں ہوئی، جو کہ 100 فیصد کمی ظاہر کرتی ہے۔ مہاراشٹر میں بارش 99 فیصد کم ہوئی۔
کرناٹک میں معمول کے 4.6 ملی میٹر کے بجائے صرف 0.9 ملی میٹر بارش ہوئی، جو 80 فیصد کمی ظاہر کرتی ہے۔
کیرالہ میں معمول کے 19.7 ملی میٹر کے مقابلے میں صرف 7.2 ملی میٹر بارش ہوئی، جو 64 فیصد کمی کی نشاندہی ہے۔
سکائی میٹ ویدر کے نائب صدر مہیش پلاوت نے کہا: ’یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس سال ملک میں اب تک کی سب سے خشک سردیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ موسمی نظام کی غیر موجودگی کی وجہ سے بارش نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے درجہ حرارت بلا روک ٹوک بڑھتا رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مدھیہ پردیش میں ایک مسلسل اینٹی سائیکلون (ہوا کے دائرے کی غیر معمولی گردش) نے مشرقی گرم ہواؤں کو مغربی ساحل تک دھکیل دیا، جس کی وجہ سے ٹھنڈی سمندری ہوائیں تاخیر کا شکار ہوئیں، اور درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوا۔
مہیش پلاوت نے مزید کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں (کلائمٹ چینج) نے انڈیا کے موسمی پیٹرن کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔
’یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) نے انڈیا میں سردیوں کی بارش کو متاثر کیا ہے۔ موسم گرما طویل ہو گیا ہے، جبکہ سردیوں کی مدت کم ہو گئی ہے، اور بے ترتیب بارشیں درجہ حرارت کے پیٹرن کو متاثر کر رہی ہیں۔‘
سائنسی تحقیق کے مطابق انڈیا میں گرمی کی شدت اور ماحولیاتی تبدیلی کے درمیان براہ راست تعلق قائم ہو چکا ہے۔
کلائمیٹ سینٹرل کے کلائمیٹ شفٹ انڈیکس کے مطابق، ممبئی میں فروری کے دوران جو درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، وہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں کم از کم تین گنا زیادہ ہونے کا امکان تھا، جبکہ گوا میں درجہ حرارت عالمی حدت کی وجہ سے پانچ گنا زیادہ ہونے کا امکان تھا۔
برطانیہ کی نیشنل سینٹر فار ایٹموسفیرک سائنس اور یونیورسٹی آف ریڈنگ کے ماہر ڈاکٹر اکشے دیوراس نے کہا: ’انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں موسمیاتی شدت کو بڑھا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں بار بار موسم کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔
تمام براعظموں میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت دیکھا جا رہا ہے، جو کہ عالمی حدت کے یکساں پیٹرن کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب تک ہم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو تیزی سے کم نہیں کرتے، موسم کے ریکارڈ بار بار ٹوٹتے رہیں گے۔‘