ملکہ برطانیہ کتنی ماحول دوست ہیں؟

شاہی فوٹو گرافر ایئن لوئڈ کہتے ہیں: ’ملکہ فطری طور پر کفایت شعار ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ماحول دوست رہی ہیں۔ رات کو دیر گئے محلات میں جا کر روشنیاں بند کرنے کی جو کہانیاں ان کے بارے میں اکثر سنائی جاتی ہیں، وہ درست ہیں۔‘

اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ بجلی ضائع نہیں کی جا رہی، سے لے کر یہ اعلان کرنے تک کہ وہ جانوروں کے بالوں والی کھال کا لباس نہیں پہنیں گی، ملکہ نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی میں اتحادی کے طور پر اپنا مقام نمایاں کرلیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

معلوم ہوتا ہے کہ ہم جیسے باقی لوگوں کی طرح ملکہ برطانیہ بھی موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات نہ ہونے سے مایوسی کا شکار ہیں۔

یہ بات رواں ہفتے کے آغاز میں ویلز کی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس کے موقعے پر ملکہ کی براہ راست دکھائی جانے والی گفتگو کے دوران سامنے آئی، جب انہوں نے کہا کہ ان کے لیے ایسے افراد ’جھنجھلاہٹ‘کا سبب ہیں جو ’باتیں تو کرتے ہیں عمل نہیں کرتے۔‘

ملکہ ڈچز آف کورن وال اور پارلیمنٹ کی پریذائیڈنگ افسر ایلن جونز سے بات چیت میں موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی سربراہ کانفرنس ’کوپ 26‘ میں شرکت کے بارے میں ذکر کر رہی تھیں۔ یہ کانفرنس 31 اکتوبر سے گلاسگو میں شروع ہوگی۔

ملکہ نے اپنی بات کی وضاحت کی: ’کیا یہ غیرمعمولی نہیں ہے۔ میں کوپ 26 کے بارے میں سب سن رہی ہوں۔ اس کے باوجود میرے علم میں نہیں کہ کون اس میں آ رہا ہے۔ کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ہمیں صرف ان لوگوں کا علم ہے جو نہیں آ رہے۔ اس سے واقعی جھنجھلاہٹ ہوتی ہے کہ جب وہ باتیں تو کرتے ہیں لیکن عملی قدم نہیں اٹھاتے۔‘

جونز نے بات آگے بڑھائی: ’بالکل درست۔ یہ عملی قدم اٹھانے اور آپ کے پوتے (شہزاہ ولیم جنہوں نے اس ہفتے ارتھ شاٹ انعام کا آغاز کیا) کو آج صبح ٹیلی ویژن پر دیکھنے کا وقت ہے جب انہوں نے کہا کہ خلا میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں زمین کو بچانے کی ضرورت ہے۔‘

ملکہ نے جواب دیا کہ ’ہاں میں نے اس بارے میں پڑھا ہے۔‘

اپنے دور حکومت کے دوران ملکہ نے اپنی جاگیر میں ماحول دوست تبدیلیاں کیں۔ بکنگھم محل شہد کی مکھیوں کے چار چھتوں کی بدولت اپنا شہد تیار کرتا ہے جبکہ ملکہ نے توانائی کی بچت کرنے والی ہائبرڈ کاروں کا متاثر کن بیڑا بنایا ہے۔ ان میں ایک کار کو رواں سال کے اوائل میں ڈیوک آف ایڈن برگ کی تدفین کے موقعے پر ان کا تابوت لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

 

شاہی فوٹو گرافر اور ’دا ڈیوک: ہنڈریڈ چیپٹرز ان دا لائف آف پرنس فلپ‘ نامی کتاب کے مصنف ایئن لوئڈ کہتے ہیں کہ ملکہ کے ماحولیاتی اعتبار سے مستقبل کے فیصلوں کا تعلق ان کے اس قدرتی رجحان کے ساتھ ہے کہ جس قدر ممکن ہو سکے کفایت شعاری سے کام لیا جائے۔

دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ گفتگو میں لوئڈ نے کہا: ’ملکہ نے روزمرہ زندگی کے لیے ہمیشہ بہت ’سادہ‘ انداز پسند کیا ہے۔ مالیاتی بحران اور دوسری عالمی جنگ کا زمانہ دیکھنے کے بعد وہ تمام زندگی پیسے بچانے سے متعلق مسائل سے آگاہ رہی ہیں۔‘

اس بارے میں بات کرتے ہوئے وہ ان افواہوں کی جانب اشارہ کر رہے تھے کہ ملکہ ہر رات بکنگھم محل کا دورہ کرتی ہیں اور جاتے ہوئے ان کمروں کی بتیاں بند کر دیتی ہیں جو استعمال میں نہیں ہوتے۔

اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ بجلی ضائع نہیں کی جا رہی، سے لے کر یہ اعلان کرنے تک کہ وہ جانوروں کے بالوں والی کھال کا لباس نہیں پہنیں گی، ملکہ نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی میں اتحادی کے طور پر اپنا مقام نمایاں کرلیا ہے۔ یہاں ان فیصلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو انہوں نے زیادہ اچھی زندگی گزارنے کے لیے کیے ہیں۔

انہوں نے سمور (فر) کے ساتھ تعلق توڑ لیا ہے

سرکاری طور پر ملکہ کے ملبوسات تیار کرنے والی ڈریسر انجیلا کیلی نے 2019 میں اعلان کیا تھا کہ ملکہ نے اصلی سمور پہننا بند کر دیا ہے اور مستقبل کے کسی بھی لباس میں مصنوعی فر استعمال کی جائے گی۔

اس حوالے سے پیشرفت شیئر کرتے ہوئے انجیلا کیلی نے یادداشتوں پر مبنی اپنی کتاب ’دی ادر سائیڈ آف دا کوئن: دا کوئین، دا ڈریسر اینڈ دا وارڈروب‘ میں انکشاف کیا کہ ملکہ اس حد تک آگے گئیں کہ انہوں نے اپنے پسندیدہ کوٹس پر سے فر کی جھالر اتروا دی۔

انہوں نے کتاب میں لکھا: ’اگر ملکہ کو خاص طور پر سرد موسم میں کسی تقریب میں شرکت کرنی ہو تو 2019 کے بعد، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ ان کا جسم گرم رہے، مصنوعی فر استعمال کی جائے گی۔‘

تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ ملکہ شاہی فرائض کی ادائیگی میں اب بھی کچھ فر زیب تن کرتی ہیں کیونکہ ان کے بہت سے روایتی رسمی ملبوسات فر کے بنے ہوئے ہیں۔ ملکہ کا فیصلہ بہت دور رس اثرات کا حامل ہے۔ لسٹ کے 2020 کے کونشیئس فیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سے انٹرنیٹ پر مصنوعی فر کی مصنوعات کی تلاش میں 52 فیصد اضافہ ہوا۔

وہ سست رفتار فیشن پر یقین رکھتی ہیں

اگرچہ ملکہ عوامی تقریبات میں شرکت کے لیے نیا لباس پہنتی ہیں لیکن ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ مربتہ اسی حلیے میں نظر آئیں۔ صحافی الزبتھ ہومز نے اپنی کتاب ’ایچ آر ایچ: سو مینی تھاٹس آن رائل سٹائل‘ میں انکشاف کیا ہے کہ ملکہ جو بھی لباس پہنتی ہیں، اس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اس انداز میں وقفہ دیا جاتا ہے کہ انہی لوگوں کے سامنے وہ لباس دو بار سے زیادہ نہ پہنا جائے۔

ہومز کے بقول: ’(تب) دوسری یا تیسری مرتبہ عوامی تقریب میں پہننے کے بعد اس پر کام کرکے اسے نئی شکل دے دی جائے گی یا اسے نجی چھٹیوں یا ملاقاتوں کے لیے مخصوص کر دیا جائے گا۔‘

ملکہ نے 2011 میں شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن کی شادی میں زرد رنگ کا جو لباس پہنا تھا، اسی سال اکتوبر میں یہی لباس آسٹریلیا کے دورے پر پہنا جبکہ ایک نیلے رنگ کا لباس اور میچنگ کوٹ جو انہوں نے 2005 میں مالٹا میں پہنا، انہیں دوسری بار 2008 میں رائل اسکوٹ ریس کورس میں اسی لباس میں دیکھا گیا۔

وہ اپنا توانائی کا استعمال محدود رکھتی ہیں

لوئڈ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ایک طرح سے (ملکہ) فطری طور پر کفایت شعار ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ماحول دوست رہی ہیں۔ رات کو دیر گئے محلات میں جا کر روشنیاں بند کرنے کی جو کہانیاں ان کے بارے میں اکثر سنائی جاتی ہیں، وہ درست ہیں۔ وہ مالیاتی بحران اور دوسری عالمی جنگ دیکھ چکی ہیں۔ وہ اپنی تمام زندگی میں پیسے بچانے کے مسائل سے آگاہ ہیں۔‘

ذاتی طور پر بتیاں بجھانے کے عمل سے ہٹ کر ملکہ اس بات پر نظر رکھتی ہیں کہ ان کی جاگیر میں کتنی ناقابل تجدید توانائی استعمال کی جا رہی ہے۔ یہ کام 60 سمارٹ میٹروں پر مشتمل نیٹ ورک کے ذریعے توانائی کے استعمال کی نگرانی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بجلی کے استعمال میں کمی لانے کے لیے ملکہ کے گھروں میں توانائی بچانے والی ایل ای ڈی روشنیاں آزمائشی طور پر استعمال کی جا رہی ہیں، جو 86 فیصد کم بجلی استعمال کرتی ہیں۔

ملکہ کی جاگیر کو گرم رکھنے کے لیے اسے قومی گرڈ سے منسلک نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے بکنگھم محل اور ونڈسر کاسل میں حرارت اور بجلی کے حصول سمیت قدرتی گیس کو بجلی میں تبدیل کرنے کے لیے مشترکہ پلانٹ اور بوائلر استمعال کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں ونڈسر کاسل 30 فیصد بجلی ہائیڈرو الیکٹرک ٹربائنز سے حاصل کرتا ہے، جو رومنی ویئر کے مقام پر دریائے ٹیمز پر نصب کی گئی ہیں۔

ضیاع پسند نہیں

مؤرخین اور سوانح نگاروں نے ملکہ کے کفایت شعاری پر مبنی طریقوں کو اچھی طرح دستاویزی شکل دی ہے۔ مصنفہ کیٹ ولیمز نے 2012 میں اپنی کتاب ’ینگ الزبتھ‘ میں دعویٰ کیا کہ ملکہ لپیٹنے کے لیے استعمال ہونے والے کاغذ کو اکثر دوبارہ استعمال کرتی ہیں۔ ولیمز نے لکھا: ’کرسمس کے بعد الزبتھ ریپنگ پیپر اور ربنز اکٹھے کرتیں، انہیں سیدھا کرتیں تاکہ انہیں سنبھال کر رکھا جا سکے۔ ان میں یہ عادت آج بھی موجود ہے۔‘

وہ اپنے لیے خود شہد حاصل کرتی ہیں

بکنگھم محل میں اٹلی کی شہد کی مکھیوں کے چار چھتے موجود ہیں۔ ان میں سے دو 2009 اور دو 2010 سے وہاں ہیں۔ شہد کے چھتوں کو باغ کی جھیل کے وسط میں ایک خشک جگہ پر رکھا گیا ہے جو گھاس میں چھپی ہوئی ہے۔ اس طرح شہد کی مکھیوں کو 350 قسم کے جنگلی پھولوں اور چھ سو پودوں تک رسائی مل جاتی ہے۔ اپنے نئے گھر میں پہلے سال کے بعد مکھیوں نے شہد کے 83 جار تیار کیے۔

ملکہ کے باغات میں جنگلی حیات کو پنپنے کا موقع دیا جاتا ہے

بکنگھم محل کے باغات بڑی احتیاط کے ساتھ تیار کیے گئے ہیں تاکہ وہ مختلف قسم کے کیڑے مکوڑوں کا قدرتی مسکن بن سکیں۔ لکڑی کے بڑے بڑے ڈھیروں کو محل کی زمین کے ارد گرد جمع کیا گیا جہاں بھنورے اور مکڑیاں رہتی ہیں۔

محل کا کہنا ہے کہ مردہ درختوں اور درختوں کے زمین میں رہ جانے والے حصے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح حشرات کو انڈے دینے اور لاروے پیدا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ روز گارڈن کے دامن میں موجود ایسا ہی درخت اب ہُدہُد کے خاندان کا گھر بنا ہوا ہے۔

باغات کی پوری 10 فیصد زمین کے لیے ’اونچی گھاس کی پالیسی‘ اپنائی گئی ہے۔ یہاں تقریباً 320 اقسام کے جنگلی پھول کھلتے ہیں اور اگست میں کم ہونے سے پہلے پورے ایک سال تک ان کی نشوونما جاری رہتی ہے۔ محل کے بقول: ’اس کا مطلب ہے کہ جنگلی پھولوں کو افزائش اور کسی مداخلت کے بغیر وجود برقرار رکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔‘

ملکہ عوام کو درخت لگانے کا کہتی ہیں

ملکہ نے مئی میں ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ اگلے سال ان کے ملکہ بننے کی پلاٹینم جوبلی سے پہلے جس قدر ہوسکے درخت لگائیں۔ ملکہ کی گرین کینوپی کی طرف سے برطانیہ بھر کے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ’ملکہ کی قومی قیادت کے اعزاز میں وہ ورثہ جس کا فائدہ مستقبل کی نسلوں کو ہوگا، تخلیق کرنے‘ کی امید پر اکتوبر میں درخت لگانے کی مہم میں حصہ لیں۔

اس سلسلے میں ہونے والے سرکاری اعلان میں کہا گیا: ’چاہے آپ کوئی تجربہ کار مالی ہوں یا مکمل طور پر نئے فرد، ہم درخت لگانے میں آپ کی رہنمائی کریں گے تاکہ وہ آنے والے سالوں میں قائم رہ سکیں اور پھل پھول سکیں۔‘

منصوبہ شروع کرنے میں مدد کے لیے ملکہ نے وڈلینڈ ٹرسٹ کے ساتھ شراکت داری کی جو ملک بھر میں سکولوں اور برادریوں کو 30 لاکھ سے زیادہ پودے عطیہ کرے گا۔ وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی، جن کا کہنا تھا کہ درخت ’موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ہماری جنگ میں اگلی صفوں میں کھڑے ہیں۔‘

سفر کم ہونے سے آلودگی میں کمی

گذشتہ سال باقی دنیا کی طرح برطانوی شاہی خاندان نے کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے بین الاقوامی اور اندرون ملک دوروں میں کمی کر دی تھی لیکن برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں شاہی خاندان کے صرف سرکاری دوروں سے 2018 میں 3344 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوئی۔ اس سال ہیری اور میگن کو نجی جیٹ کے ذریعے سفر پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا شاہی خاندان سفر کرتے ہوئے کاربن کی پیدوار کو متوازن بنانے کے طریقے سے کام لیتا ہے یا نہیں، لیکن رواں ماہ کے شروع میں ایڈن برگ کلائمیٹ چینج انسٹی ٹیوٹ کے دورے میں ملکہ کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب ہے کہ ’بالآخر ہمیں وہ طریقہ تبدیل کرنا ہوگا، جس سے کام لیتے ہوئے دراصل ہم افعال انجام دیتے ہیں۔‘

ملکہ کی ذاتی تبدیلیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے الیکٹرک گاڑیوں میں سفر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہائبرڈ رینج روور میں انسٹی ٹیوٹ آمد کے بعد جب وہ کار سے اتریں تو انہوں نے دیکھنے والوں کو بتایا کہ ’یہ الیکٹرک ہے۔‘

شاہی خاندان کے ترجمان نے 2017 میں اخبار’دا مرر‘کو بتایا تھا کہ ملکہ نے اپنی الیکٹرک کاروں کی تعداد بڑھا دی ہے اور اس میں ماحول دوست نسان وین کا اضافہ کیا ہے۔

شاہی کاروں کے بیڑے میں پہلے ہی رینالٹ ٹوئزی، ایک بی ایم ڈبلیو آئی تھری اور سیون سیریز کی بی ایم ڈبلیو ہائبرڈ شامل ہیں۔ شاہی ترجمان کا کہنا تھا کہ بکنگھم محل کی باغبانی کی ٹیم نسان وین کو ’مشینری، پودوں اور عملے کی نقل و حرکت‘کے لیے استعمال کرے گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل