دنیا کا موسم تیزی سے بدل رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1970 کے مقابلے میں طوفان، خشک سالی، شدید گرمی اور سردی اور آگ لگنے کے واقعات میں پچھلے 50 برس میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
ماہرین کو خدشہ ہے اگر ماحولیاتی تبدیلی سے فوری طور پر نہ نمٹا گیا تو دنیا ایسے موڑ پر پہنچ جائے گی جہاں سے واپس آنا ناممکن ہو جائے گا۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں 197 ملکوں کی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں دنیا بھر کے رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سفارشات اور تجاویز پر غور کریں گے۔
کوپ 26 کس چیز کا مخفف ہے؟
سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ کوپ 26 (COP26) ’کانفرنس آف دا پارٹیز‘ کا مخفف ہے۔ اس کے ساتھ 26 کا ہندسہ اس لیے لگایا گیا ہے کہ یہ 26ویں کانفرنس ہے۔ اس سال یہ کانفرنس 31 اکتوبر سے لے کر 12 نومبر کے درمیان ہو گی۔
کوپ 26 کیا ہے؟
اقوام متحدہ نے 1992 میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا تھا، جسے ’یو این فریم ورک کنوینشن آن کلائمٹ چینج‘ کہتے ہیں۔
اس کے تحت ہر سال رکن ملکوں کا اجلاس ہوتا ہے اور اس بات پر غور ہوتا ہے کہ یہ ملک سفارشات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں۔
اس سلسلے کا پہلا اجلاس برلن میں 1995 میں ہوا تھا جس کے بعد یہ ہر سال منعقد کیا جاتا ہے۔
یہ تنظیم ملکوں پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکنے کے لیے شرائط عائد کرتی ہے جس پر عمل درآمد لازمی ہے۔
کانفرنس میں کون کون شریک ہو گا؟
امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن، ملکہ برطانیہ کے علاوہ تقریباً 100 ملکوں کے سربراہ اس میں شریک ہو رہے ہیں۔
تاہم چینی صدر شی جن پنگ اس اہم اجلاس کا حصہ نہیں ہوں گے، حالانکہ چین دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔
کوپ 26 میں کیا فیصلے ہوں گے؟
کوپ 26 کا اہم ترین ہدف عالمی تپش میں اضافے کو روکنے کے لیے فضا میں کاربن کی مقدار کو کم رکھنا ہے، جس کے لیے متعدد اقدمات تجویز کیے گئے ہیں۔ فی الحال دنیا کو اس ہدف کو پورا کرنے میں مشکل کا سامنا ہے۔
رکن ملک کانفرنس کے دوران دنیا سے آلودگی کم کرنے کی تجاویز اور اہداف رکھیں گے۔ بہت سے فیصلے اس سے قبل ہونے والے پیرس معاہدے کے تناظر میں ہوں گے۔
پیرس معاہدہ کیا ہے؟
پیرس معاہدہ (The Paris Agreement) انتہائی اہم معاہدہ ہے جو 12 دسمبر، 2015 کو فرانس کے دارالحکومت میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے پر 200 کے قریب ملکوں نے دستخط کیے تھے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا بھر کے ملک ماحولیاتی تپش پیدا کرنے والی گیسوں کے اخراج کی روک تھام کے لیے ایک معاہدے تک پہنچے تھے۔
اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ دنیا کے ملک عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو 1.5 سیلسیئس تک محدود کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں گے۔
اس معاہدے کے تحت ہر ملک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے اہداف خود مقرر کرے گا جن کا ہر پانچ سال بعد جائزہ لیا جائے گا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا تھا، البتہ نئے صدر جو بائیڈن دوبارہ اس میں شامل ہو گئے ہیں۔
1.5 ڈگری سیلسئس میں کیا خاص بات ہے؟
ماحولیاتی تبدیلی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے آئی پی سی سی نے بڑے پیمانے پر تحقیق سے نتیجہ نکالا ہے کہ دو ڈگری اور 1.5 ڈگری اضافے میں بہت بڑا فرق ہے۔
اگرچہ 1.5 ڈگری تپش سے بھی ماحول میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوں گی، لیکن دو ڈگری سے جو تباہی ہو گی، اس کے مقابلے پر 1.5 ڈگری پھر بھی غنیمت ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے میں مسئلہ کیا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی معیشت کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والی انڈسٹری پر چل رہی ہے۔
پیٹرولیم، کوئلہ، قدرتی گیس کے استعمال کے علاوہ زراعت اور گلہ بانی سبھی سے گرین ہاؤس گیسیں پیدا ہوتی ہیں جو ماحولیاتی تپش کا باعث بنتی ہیں۔
اگر کوئی ملک ان اشیا سے پرہیز کرتا ہے تو اسے بہت بڑے پیمانے پر اپنی معیشت میں تبدیلی لانی ہو گی جو بےحد مہنگا سودا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے ملک توانائی کے صاف ستھرے ذرائع اپنانے سے ہچکچا رہے ہیں کیوں کہ روایتی ایندھن کے مقابلے پر یہ نئے ذرائع بہت مہنگے ہیں۔
انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ اپنی انڈسٹری پر پابندیاں لگائیں گے تو ان کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عمل یک لخت نہیں، بلکہ رفت رفتہ ہی ہو سکتا ہے۔
کون سے ملک ہیں جو وعدوں پر عمل نہیں کر رہے؟
چین، آسٹریلیا، روس اور بھارت نے ابھی تک آلودگی کم کرنے کے نئے وعدے نہیں کیے۔
کیا کوپ 26 کے سارے رکن ملک برابر ہیں؟
نہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غریب ترین ملک، جو سب سے کم کاربن آلودگی پھیلا رہے ہیں، وہ ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔
سب سے زیادہ آلودگی امیر ترین ملک پھیلا رہے ہیں اور اس وقت فضا میں موجود اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بہت بڑا حصہ انہی ملکوں کا پیدا کردہ ہے۔