سفارت کار شکایت کرتے ہیں کہ جب بات مذاکرات کی ہو تو روسی صدر ولادی میر پوتن فریق مخالف کے ساتھ سازگار ماحول قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ افہام و تفہیم کے بجائے مذاکرات کا آغاز دھمکیوں سے کرتے ہیں۔
نیٹو ممالک یوکرین کی سرحد کے قریب درجنوں کی تعداد میں موجود روسی ٹیکٹیکل دستوں سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ ہر ٹیکٹیکل دستے میں تقریباً 800 سپاہی شامل ہیں جن کی تعیناتی یوکرین کی سرحد پر کی گئی ہے۔
اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا پوتن یوکرین کے اس علاقے کو روس میں ضم کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں؟ یا یہ مذاکرات کا آغاز ہے؟
یہ طاقت کا مظاہرہ ہے۔ یورپ میں سرد جنگ کے بعد پہلی بار طاقت کا ایسا مظاہرہ دیکھا گیا ہے جس میں عسکری نقل و حرکت شامل ہے۔ اس پیش رفت نے یقینی طور پر مغرب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے روسی شہریوں کی روبہ زوال معیشت، ویکسین پر عدم اعتماد اور اولمپکس میں روسی جھنڈے پر پابندی جیسے معاملات سے توجہ ہٹا دی ہے۔
روس کی 17.1 کھرب ڈالر پر محیط معیشت نیٹو ممالک کے ساتھ جنگ میں مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ دوسری طرف اکیلے امریکہ کی معیشت 248 کھرب ڈالر پر مشتمل ہے۔ روسی افواج کے خلاف یوکرین کی مزاحمت خونی کشمکش کا باعث بنے گی، جس کی روس کو خواہش ہے نہ یوکرین کو۔
روس کے پاس بکتر بند گاڑیوں کی بڑی تعداد ہے لیکن یوکرین دنیا میں ہتھیاروں کی سب سے بڑی بلیک مارکیٹوں میں سے ایک ہے جہاں ملک بھر میں تقریباً 30 سے 30 لاکھ تک کی تعداد میں غیر قانونی آتشیں ہتھیار گردش کر رہے ہیں۔
ابھی یوکرین کو برطانیہ نے ٹینک شکن ہتھیار دیے ہیں۔ کیا یہ ہتھیار یوکرین کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ثابت ہوں گے؟ یا انہیں کرپٹو کرنسیوں کے عوض فروخت کر دیا جائے گا؟
پوتن کی تنہائی
اگر پوتن کو جنگ کا خاص شوق نہیں تو انہوں نے محاذ آرائی پر مبنی یہ سارا ماحول کیوں بنایا ہے؟ کرونا وائرس کی وبا کے بعد سے روسی صدر مسلسل روس کے اندر الگ تھلگ اور عوام سے کٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ روسی حکومت پر عوام کا اعتماد اپنی کم ترین سطح پر ہے۔
روسی میڈیا اکثر امریکہ کو اپنی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے لیکن ابھی تک وہ اس قدر آگے نہیں گیا کہ امریکہ سے انتقام کی خاطر روس کو یوکرین پر حملے کا مشورہ دینے لگے۔ دراصل پوتن سمیت بہت سے روسی یوکرین کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہیں گے اور یہی بات پوتن کے ذہن میں ہے۔
بہرحال یوکرین میں ایک صحت مند اور مستحکم جمہوری نظام موجود ہے، جسے مغرب کی حمایت حاصل ہو۔ یہی پوتن کی بے چینی کا باعث ہے۔
ٹی وی کامیڈین سے یوکرین کے صدر بننے والے ولادی میر زیلنسکی نے اپنی مدت حکومت کے دوران مغرب سے ٹھوس بنیادوں پر تعلقات استوار کیے۔ زیلنسکی نے یوکرین میں اولیگارکی (oligarchy) کے خاتمے اور ملک کے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے مہم چلائی۔ (اولیگارک وہ چھوٹا سا طبقہ ہے جس نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نجکاری کے عمل کے دوران بےپناہ دولت کمائی اور اب ان کا شمار یورپ کے مالدار ترین اور طاقتور ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔
اپنے مشیر اعلیٰ سرہیے شیفر پر قاتلانہ حملے کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی نے الزام لگایا کہ یوکرین اور روس کے باشندوں پر مشتمل چند گروہ ان کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
برطانوی خفیہ ادارے نے تصدیق کی ہے کہ روس یوکرین میں اگلے صدارتی امیدوار کے طور پر یوکرین کے سابق رکن پارلیمان ییوہین مورایف کی حمایت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
روسی حکام اور ماسکو کے وفادار اولیگارک سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد اور نفسیاتی دھمکیوں کا ثابت شدہ ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ یہ حربے انتخابات پر اثرانداز ہونے اور اپنے پسندیدہ امیدوار منتخب کروانے سے بالاتر نہیں۔
امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈو لیون کہتے ہیں کہ امریکہ اور سوویت یونین یا روس 1946 اور 2000 کے درمیان ہونے والے ہر نو بین الاقوامی انتخابات میں سے ایک پر اثر انداز ہوئے۔ نارویجین ڈیفنس یونیورسٹی کالج سے وابستہ گیئر کارلسن کہتے ہیں کہ روس وہ ’غیر ملکی ریاست ہے جو یورپی سیاست پر اثرانداز ہونے کے لیے کوشش کرتی ہے۔‘
(صرف یورپ ہی نہیں، روس پر الزام ہے کہ اس نے 2016 کے امریکی انتخابات پر سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور جھوٹی خبروں پر مشتمل منظم مہمیں چلا کر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو تقویت پہنچائی اور ان کی جیت میں کردار ادا کیا۔ خود امریکی اداروں نے اس الزام کی تصدیق کی تھی۔)
یورپی یونین یا نیٹو کو کمزور کرنے کے لیے ٹینکوں یا میزائلوں کی ضرورت نہیں۔ روس کا سوشل میڈیا ان معاملات کا فائدہ اٹھاتا ہے، جن میں عوامی رائے تقسیم کا شکار ہو۔ اس کے بعد روس امیدواروں کو منتخب کرتا اور آف شور سرمائے کے ذریعے ان کی حمایت کرتا ہے۔ بالآخر اس طرح اثرانداز ہونے کے لیے ایسے ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے جن کی مدد سے سرحد پار خاموشی سے رقم منتقل کی جا سکے۔
آف شور سرمایہ
یہی وجہ ہے کہ یوکرین میں تنازعات کی اصل جڑیں سوئس الپس کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں یا برٹش ورجن آئی لینڈز کے ریتلے ساحلوں میں ہیں۔ یوکرین کے بہت سے سیاست دانوں کا آف شور سرمایہ ہے جس کے سبب روسی ہتھکنڈوں کے سامنے جمہوریت بآسانی یرغمال بن سکتی ہے۔ سابق صدر پوروشینکو نے 2014 میں کرائمیا کے تنازعے کے دوران برٹش ورجن آئی لینڈز میں ایک آف شور شیل کمپنی قائم کی تھی۔
یوکرین کے ایک مشہور ارب پتی اور موجودہ صدر زیلنسکی کے ممکنہ سیاسی حریف ریانات آخمیتوف کے سوئٹزرلینڈ سمیت کئی ممالک میں بہت سے آف شور اکاؤنٹس ہیں۔ یہاں تک کہ آف شور کیپیٹل ویب کے ایک پیچیدے سلسلے میں شیل کمپنیوں کے مالک کے طور پر خود زیلنسکی کا نام بھی سامنے آیا ہے۔
بلاشبہ آف شور سرمایہ ہمیشہ شر پسندانہ سرگرمیوں کا راستہ نہیں ہموار کرتا، لیکن گذشتہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ باقاعدگی سے غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور ایسا کرنے میں شمالی کوریا جیسے ممالک بھی شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ اثاثہ جات کے مبہم انتظامی نیٹ ورکس پر انحصار کرتا ہے جن کا دائرہ محض ٹیکس چوری تک محدود نہیں۔ اندازے کے مطابق ٹیکس چوری کی وجہ سے یوکرین کو سالانہ 43.5 کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور سرمائے کی غیر قانونی ترسیل پر نظر رکھنے والے ٹریکر کے مطابق ملک کے اندر آنے اور باہر جانے والی سرمایہ کی ایسی غیر قانونی منتقلی کے خطرے کے لحاظ سے یوکرین سو ممالک کی فہرست میں 62ویں نمبر پر ہے۔
یوکرین کی سیاست میں آف شور سرمائے کی موجودگی ملکی جمہوریت کو کمزور کرتے ہوئے بدعنوان اور غیر شفاف بناتی ہے۔ تمام اہم سیاسی افراد غیر ملکی مالیاتی سلسلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرقی یورپ میں مالی اعانت کس حد تک واقعی یوکرین کی جمہوریت اور سلامتی پر اثرانداز ہو رہی ہے؟
برائے نام پابندیاں
پابندیاں اور ہتھیار آف شور سرمائے پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔ شمالی کوریا میں مالیاتی دھوکہ دہی پر کی گئی گذشتہ تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ براہ راست پابندیاں اکثر محض علامتی ہوتی ہیں۔ مالیاتی معاملات درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ماحول کو نشانہ بنایا جائے جو مجرموں کے لیے سازگار ہے۔ اس کے لیے ان راستوں پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے جو یوکرین پر اثرانداز ہونے کے لیے روس استعمال کرتا ہے۔
اگر نیٹو یوکرین کے استحکام کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے جمہوریت کی حمایت کے اپنے وعدوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ کینیڈا کے پارلیمانی سینٹر سے وابستہ ماہر گیبریئل بارڈیل جمہوریت کی امداد کو ’کم لاگت والی زیادہ اثرات کی حامل سرمایہ کاری‘ کہتی ہیں۔
بارڈیل کے مطابق جامع جمہوری نظام زیادہ صحت مند معاشروں، خوشحال شراکت داروں اور زیادہ محفوظ دنیا کے قیام کا باعث بنتا ہے، لہٰذا نیٹو ممالک کو یوکرین کے اندر ایسے طور طریقے تلاش کرنے چاہییں، جن سے جمہوری ڈھانچے کی مالی معاونت ممکن ہو، جو غیر ملکی اثر و رسوخ کی کسی بھی ضرورت یا خواہش کا خاتمہ کر دیں۔
یوکرین کی جمہوریت کو اس وقت خطرہ آف شور اثاثہ جات کے مالک سیاسیت دانوں سے ہے جنہیں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے ماسکو یا کسی اور جگہ سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔ ولادی میر پوتن نیٹو کے ساتھ کھلے عام جنگ نہیں چاہتے۔ لیکن وہ جمہوریت کو درہم برہم اور آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔
جنگ کو آف شور بینک اکاؤنٹس تک لے جانا پہلا مزاحمتی قدم ہے۔ ایسے بہترین جمہوری ڈھانچوں کا قیام، جن میں آف شور اثاثہ جات کے مالک سیاسیت دانوں کی کوئی جگہ نہ ہو، اگلا ضروری قدم ہے۔
یہ تحریر ہم نے ’دا کنورسیشن‘ سے لی ہے اور یہاں اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے چھاپا جا رہا ہے۔ اس کے مصنف رابرٹ ہیوش کینیڈا کی ڈیلہوزی یونیورسٹی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سٹڈیز کے ایسوس ایٹ پروفیسر ہیں۔