یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
ہم اہلِ گرین کارڈ، گرین پاسپورٹ والوں کو کب سے سمجھا رہے ہیں کہ تمہاری سب سے بڑی ضرورت آزادی ہے لیکن اس غلام قوم کی اکثریت نہ تو ہمارا بیان سن رہی ہے اور نہ بیانیہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔
کیا کہا، بات ایسے ہی درمیان سے شروع نہیں کرتے تو چلیں پہلے تعارف ہو جائے۔
جی میں ایک آزاد ذہن کا مالک ہوں۔
میرا نام۔ ۔ ۔ خیر چھوڑیں نام میں کیا رکھا ہے؟ گُلاب کسی بھی نام سے پُکارا جائے اس کی مہک میں کمی تھوڑی ہو جاتی ہے، ویسے کباب کو بھی کوئی سا نام دے دیں، اس کی اشتہا انگیز خوشبو بھی نہیں بدلتی لہٰذا کسی بھی نام میں کچھ نہیں رکھا لیکن پھر بھی اپنا نام اپنا ہی ہوتا ہے، اس لیے سہولت کے لیے کہہ لیجیے میرا نام رنگریز ہے۔ نہیں نہیں انگریز نہیں، رنگ ریز۔ اس کا مطلب ہے رنگنے والا۔ آپ پھر غلط سمجھے، میں وہ رنگنے والا نہیں جس کولڑکیاں بالیاں دھنک کے ساتوں رنگ اور دھان کے جیسے رنگ میں رنگنے کے لیے اپنے ڈوپٹے اور چُنریاں دے جاتی ہیں۔
۔۔۔ رنگ دے موری دھانی چُنریا
میں وہ رنگریز بھی نہیں جس کے عشق کا گہرا اور پکا رنگ اتارے نہیں اترتا اور رنگا جانے والا پُکارتا پھرتا ہے کہ
یہ کون سے پانی میں تُونے
کون سا رنگ گھولا ہے؟
کہ دل بن گیا سودائی
میں تو وہ رنگ باز ہوں جو کسی بھی بیانیے کا رنگ کسی پہ بھی چڑھانے کے لیے اپنی کڑاہی ہمہ وقت تحریک کی آگ پہ چڑھائے رکھتا ہے۔ کبھی سیاست کبھی جمہوریت کبھی مذہب، کبھی توہین، کبھی غداری، تو کبھی حب الوطنی۔ جی ہاں حب الوطنی جس کے بارے میں تقریباً سو سال پہلے اقبال فرما گئے تھے
ان تازہ خُداؤں میں بڑا سب سے، وطن ہے
مثال کے طور پہ بتاتا چلوں کہ اس حب الوطنی کے ازالے کے واسطے میرے پاس تیز بہدف نُسخہَ رنگ ’غداری‘ بھی ہے جس کی پُڑیا میرے قیمتی چمڑی بریف کیس کے خفیہ خانے میں احتیاط سے رکھی ہے۔ آج کل لیکن میرے پاس نہایت چمکیلا اور لشکارے مارتا خاص ٹوکن والا ’نئی آزادی‘ کا پینٹ آیا ہوا ہے۔ کہاں سے آیا ہے یہ میں کیوں بتاؤں؟ مجھے آپ کو ٹریل دینے کی پابندی ہے کیا؟
اور مجھے کیا پڑی ہے کہ ن۔ م۔ راشد کی طرح گلیوں میں آوازیں لگاتا پھروں کہ خواب لے لو خواب۔ یہ تو شاعروں کا کام ہے۔ ویسے اب گلیوں گلیوں مارے مارے پھرنے کا زمانہ بھی نہیں رہا، خدا خوش رکھے مغرب والوں کو کہ سوشل میڈیا کے ذریعے منٹوں میں یہ پیغام لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہاہے کہ ’آزادی لے لو آزادی!‘
کیا کہا، پہلے میں اپنے بارے میں کچھ بتاؤں؟ جی تو دل تھام کر اور موبائل فون ایک طرف رکھ کر سُنیے۔ میرا آدھے سے زیادہ خاندان۔ ۔ ددھیال اور ننھیال دونوں۔ ۔ ۔ اور بے شمار دوست، احباب، کاروباری شراکت دار وغیرہ، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا اور اپنے وہ کیا نام ہے؟ ہاں یاد آیا، امریکہ جی ہاں امریکہ میں رہتے ہیں۔
بعض تو پچھلی نسل سے ہی باہر آباد ہیں۔ میرے بچے بھی پڑھ لکھ کر وہیں نوکریاں کر رہے ہیں۔ شادیاں بھی وہیں کر رکھی ہیں۔ جی کیا کہا میں خود ملک میں کیا کر رہا ہوں؟ تو بھائی، یہاں کی جائیداد کی دیکھ بھال اور رکھوالی نہیں کرنی؟ اس چور قوم کا کیا بھروسہ کہیں پہ بھی کسی کی بھی چیز پہ قبضہ کر لے، لہٰذا آتا جاتا یا جاتا آتا رہتا ہوں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی باہر والے ایماندار لوگوں کی۔
بٹوارے سے پہلے جب انگریز ہندوستان پر قابض تھے تو مقامی لوگ لندن اور یورپ کے دوسرے بڑے شہروں کی جانب زیادہ تعداد میں رُخ کرنے لگے۔ اس زمانے میں طاقت کا مرکزہ لندن ہوا کرتا تھا جیسے آج کل واشنگٹن ہے جہاں کی یاترا کی عالمی حسرت کا کیا کہنا کہ
۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس زمانے میں باہر جانے والے دھوتی، پاجامہ اور شلوارکے وارث، سُوٹ بُوٹ اور ہیٹ میں جنٹلمین بن کر لوٹتے تھے، ولایت پلٹ بابو صاحب بن کر اِتراتے تھے اور دیسی کالوں کو مزید احساسِ کمتری میں مبتلا کرتے تھے۔ کچھ دیسی لوگ تو ولایت جائے بغیر بھی ’صاب‘ بن جاتے تھے۔ اس کا دلچسپ نظارہ دلیپ کمار کی فلم “ سگینہ “ میں دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
سالا میں تو صاب بن گیا
صاب بن کے کیسا تن گیا
یہ سُوٹ میرا دیکھو
یہ بُوٹ میرا دیکھو
جیسے گورا کوئی لنڈن کا
(جیسے بابو واشنگٹن کا)
انہی ولایتی بابوؤں میں سے جس کی دُعائیں قبول ہوئیں وہ وہیں کا ہو گیا۔ تو بس یُوں سمجھ لیجیے کہ بعد کی نسل وہیں پیدا ہوئی اور آگے ان کی اولاد تو مکمل وہیں کی ہے بلکہ یورپ، امریکہ وغیرہ میں ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ ویسے ملک کے اندر اب تک رہ جانے والے میرے خاندان کے لوگ باہر جاتے آتے رہتے ہیں اور بہت سے باہر کا پاسپورٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں بھی لگے رہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ امیگریشن کے چکر لگاتے ہیں اور ویزے کی لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار بھی کرتے ہیں۔ کئی بار عبادت کا وقت بھی نکل جاتا ہے لیکن مجبوری ہے بہت کچھ پانے کے لیے تھوڑا بہت کھونا بھی پڑتا ہے۔
میری اپنی برادری کے یہاں رہ جانے والے لوگوں نے بھی امریکی ویزا کے لیے درخواست دے رکھی ہے اور ’باہر والے‘ رشتے دار انہیں سپانسر بھی کر رہے ہیں تا کہ یہ سب باری باری وہاں جا کر گرین کارڈ حاصل کرنے کی کوشش شروع کریں اور پھر کسی طرح گرین پاسپورٹ کی جگہ نیلا پاسپورٹ حاصل کر لیں جو دنیا بھر میں مستند پروانۂ راہداری اور انصاف کی علامت ہے کہ ہاتھ میں آتے ہی گنگو تیلی بھی راجہ بھوج کے برابر ہو جاتا ہے۔ یہاں محمود و ایاز والی مثال جان بوجھ کر نہیں دی، وجہ پھر کبھی سہی۔
اب آپ پُوچھیں گے کہ بھائی سب کچھ تو درست سمت میں جا رہا ہے تو آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
جی مسئلہ میرا نہیں میری غلام ذہنیت رکھنے والی قوم کا ہے۔ میں اپنے غریب غلام ہم وطنوں کے بارے میں بہت پریشان رہتا ہوں بلکہ میرا پورا ہم خیال و ہم ملال گروہ سخت رنجیدہ اور غصے میں ہے کہ میرے ہم وطن ایک عجیب وہم کا شکار ہیں۔
آپ اسے اجتماعی فریب بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب کے سب خود کو ایک آزاد قوم سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان کا ملک 75 سال پہلے آزاد ہو گیا تھا اور یہ آزادی ایک لمبی جدوجہد کے بعد انگریز حکمرانوں سے حاصل کی گئی تھی۔
ہم گرین کارڈ کے رکھوالے ان کو سمجھا رہے ہیں کہ تم ایک غلام قوم ہو جس کو امریکی، جی ہاں، آپ نے ٹھیک سُنا اور پڑھا، امریکی حکمرانوں نے چند ملین یا بلین ڈالروں کی امداد کے عوض خرید رکھا ہے اور جب چاہیں تمہارے نظام میں ایسی مداخلت کرتے رہتے ہیں جن کے پیچھے گھناؤنی سازش چھپی ہوتی ہے۔
آپ ہماری شرافت دیکھیے اور مرّوت کی داد دیجیے کہ ہم کسی اور مسئلے کو چھیڑتے بھی نہیں، ہم نے کبھی کہا کہ ملک میں تعلیم عام ہونی چاہیے، صحت کی سہولتیں سب کو حاصل ہونی چاہئیں۔ عزت سے جینے کے لیے روزگار کے مواقع مہیا ہونا چاہییں۔ پانی، بجلی، گیس کے لیے مناسب انتظام ہونا چاہیے۔ قومی بجٹ کا خسارا کم ہونا چاہیے، روپے کی بے توقیری کو بریک لگنی چاہیے۔
خیر اب اس سڑک پہ اور آگے کیا جانا، اصلی مسئلے کی طرف یو ٹرن لیتے ہوئے پلٹتے ہیں ’نئی آزادی‘ کی جانب جس کی قدر دیسی لوگ نہیں سمجھ رہے۔
اے لو! پھر ’سگینہ مہاتو‘ یاد آ گئے۔ کشور کمار کی منفرد آواز جو پہلی اور آخری بار دلیپ کمار پہ فلمائی گئی اور سچن دیو برمن کا سنگیت اپنی جگہ لیکن مجروح سُلطان پُوری نے بھی کیا گیت لکھ ڈالا کہ 50 سال بعد آج بھی ویسا ہی تازہ لگتا ہے۔
تم لنگوٹی والا نہ بدلا ہے نہ بدلے گا
تم سب کالا لوگ کی قسمت ہم سالا بدلے گا!
کیا جانو تم اس بھیجا میں کیا کیا نقشہ کھینچا
لیڈر لوگ کی اونچی باتیں کیا سمجھے تم نیچا!
نیچوں کی تو چھوڑیں ہم گرین کارڈ والوں کی بات نہ سننے اور نہ سمجھنے والوں میں گرین پاسپورٹ والی غلام قوم کے کون کون سے محکمے اور ادارے شامل ہیں آپ سُنیں گے تو حیرت کے مارے کُرسی سے پیچھے کو گر پڑیں گے اور اگر کھڑے ہیں تو بیٹھنے کو کُرسی تلاش کر تے رہ جائیں گے۔
فوج، پارلیمان، عدلیہ، بیوروکریسی، الیکشن کمیشن، تمام عوامی سیاسی نمائندے اور میڈیا کے علاوہ ان کے تمام ذیلی ادارے بشمول عدلیہ کی بار ایسوسی ایشنز، تجارتی چیمبرز، صحافتی تنظیمیں۔ ۔ سب کے سب بک گئے۔ یعنی کمال نہیں ہو گیا؟
لیکن چلو اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اب بھی ایک طبقہ ہمارے فرقے کی تائید کر رہا ہے۔ پُوری دنیا میں پھیلا ہُوا یہ طبقہ نہ صرف بھاری مالی وسائل کی بدولت اہم ہے بلکہ گلوبل ولیج میں سوشل میڈیا کے کارن دندناتا بھی پھرتا ہے اور زناٹے دار پوسٹیں لگا تار لگا لگا کر غلام قوم کو آزادی کی بتی کے پیچھے لگانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے جو مانتے ہی نہیں اور ضد کیے جاتے ہیں کہ ہم تو پہلے سے ہی آزاد ہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ ہمارا یہ گروہ آئین، آئین سازی، پارلیمان اور قانون کی تشریح کے گورکھ دھندے میں نہیں پڑتا اور زمینی حقائق کو سمجھنے کے چکر سے بھی نکل چُکا ہے۔ معاشی مجبوریاں، نازک علاقائی تعلقات، اُلجھا ہُوا تاریخی نصاب، حساس سرحدی صورتِ حال اور منفرد جغرافیائی لوکیشن جیسی پیچیدگیوں کا نام بھی سُننا گوارا نہیں کرتا۔
امریکہ مخالف منجن کی پُڑیاں اور نئی آزادی کے چُورن کی گولیاں ان میں اندھا دُھند ایسے بکتی ہیں جیسے اندھے آپس میں ریوڑیاں بانٹتے ہیں۔
باقی رہی بات عدلیہ کی تو جب یہ ہمارے ساتھ ہو تو اس کی کارکردگی کو سراہا بھی جانا چاہیے لیکن جانے کیوں قانون کبھی کبھی غلط فیصلے بھی کرنے لگتا ہے، ظاہر ہے پھر اس پر تنقید کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اُمید ہے کہ اب کم از کم آپ کو اچھی طرح ہمارا بیانیہ سمجھ آ گیا ہو گا۔ گرین پاسپورٹ والوں کو گرین کارڈ والے نہیں سمجھائیں گے تو کون سمجھاۓ گا؟
اب جاہل، غلام قوم کی قسمت ہم نہیں بدلیں گے تو کون بدلے گا؟ غلام بھی ایسے جن کے پاس کھونے کے لیے زنجیریں بھی نہیں ہیں۔
فقط آپ کا
غلاموں کی آزادی کے لیے کوشاں
’ایک آزاد‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔