ٹرمپ کی ایران پالیسی

ایران کے خلاف کسی بھی یک طرفہ کارروائی کے نتائج مشرق وسطیٰ کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو چار فروری، 2025 کو وائٹ ہاؤس میں وائٹ ہاؤس سٹاف سیکریٹری وِل شارف (بائیں) کی جانب سے ’ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ دوبارہ نافذ کرنے‘ سے متعلق ایک ایگزیکٹیو آرڈر دیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی ایران پر ’دباؤ بڑھانے‘ کی پالیسی جاری ہے۔

فروری میں انہوں نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا جس کے تحت ایران پر سخت ترین پابندیاں دوبارہ عائد کر دی گئیں، جس سے ایرانی معیشت کو مزید نقصان پہنچا۔

ان نئی پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی ریال کا امریکی ڈالر کے مقابلے میں شرح تبادلہ اوپن مارکیٹ میں 42,100 تک گر چکا ہے۔

ٹرمپ کا ایران کے ساتھ ذاتی بغض بھی ہے اور وہ تہران کو اپنی زندگی پر دو قاتلانہ حملوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، جو مبینہ طور پر ایرانی انقلابی گارڈ کور کے جنرل قاسم سلیمانی کو 2020 میں عراق میں ڈرون حملے میں مارنے کا بدلہ لینے کے طور پر ہوئے۔

ان میں سے پہلا حملہ جولائی 2024 میں پنسلوانیا میں ایک انتخابی جلسے کے دوران جبکہ دوسرا حملہ ستمبر میں فلوریڈا میں گولف کھیلتے وقت ہوا تھا۔

ٹرمپ کا سب سے بڑا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ہے، اور اسی لیے انہوں نے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اپنے پہلے دور اقتدار میں ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر جوائنٹ کمپرینسیو پلان آف ایکشن کو ختم کردیا تھا۔

اس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں لگائی گئی تھیں اور بدلے میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں۔

ٹرمپ نے اس کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کو نئی شکل دینے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی کوششوں کو بھی ناکام بنا دیا۔

غزہ، لبنان اور شام میں شکست اور ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مزید پابندیوں کے امکان کے بعد ایران نے اپنے فردو جوہری پلانٹ میں یورینیم کی 60 فیصد تک افزودگی شروع کر دی ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح سے نیچے ہے۔

نئے اندازوں کے مطابق ایران 60 فیصد افزودہ یورینیم کی 34 کلوگرام ماہانہ پیداوار کر رہا ہے، جب کہ پہلے یہ مقدار 4.7 کلوگرام تھی۔

60 فیصد افزودہ یورینیم کے سٹاک ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے میں بہت تیزی سے مدد فراہم کریں گے۔ بہرحال، امریکہ کی طرف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رہے گی اور آنے والے ہفتوں میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ 

ایران کے یورینیم ذخائر پر امریکہ کے تین تحفظات

پہلا اسرائیل کی فوجی برتری میں کمی: اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی برتری متاثر ہو جائے گی۔

اس وقت اسرائیل واحد ملک ہے جو مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیار رکھتا ہے۔

اسی طرح دوسرا دیگر ممالک کا جوہری پروگرام کا مطالبہ: ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے بعد دیگر ممالک جیسے سعودی عرب امریکہ سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے جوہری پروگرام کی اجازت دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

اگر امریکہ اس مطالبے کو قبول نہیں کرتا تو سعودی عرب چین سے مدد حاصل کر سکتا ہے۔

تیسرا ایک نئی عالمی اسلحے کی دوڑ: اگر ایران جوہری ہتھیار کا تجربہ کرتا ہے تو اس سے ایران اور اس کے مخالفین کے درمیان ایک نئی اسلحے کی دوڑ شروع ہو جائے گی، جس سے جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کو نقصان پہنچے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ کا دوسرا مقصد ایران کی تیل کی برآمدات کو شدید پابندیوں کے ذریعے کم کرنا ہے۔

اگرچہ یہ مقصد حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا، پھر بھی امریکہ ایران کے تیل کو عالمی منڈی میں فروخت کرنے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔

ایران کے پاس دنیا کے چوتھے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں جن کی مقدار 158 ارب بیرل ہے۔ تیل کی برآمدات ایرانی حکومت کی 70 فیصد آمدنی کا ذریعہ ہے۔

تیل کی برآمدات کو روک کر ٹرمپ انتظامیہ ایران کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پالیسی میں ذاتی انتقام کا عنصر بھی موجود ہے۔

ایران کی تیل کی برآمدات کو صفر تک لانا دو وجوہات کی وجہ سے ممکن نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے زیادہ تر ایرانی تیل بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے اور پاکستان، شام اور افغانستان جیسے ممالک میں سمگل کیا جاتا ہے، اس لیے ان ممالک سے ایران کے تیل کی سمگلنگ کو روکنے میں امریکہ کو مشکل پیش آئے گی۔

دوسری وجہ یہ کہ 2018 سے زیادہ تر ایرانی تیل چین کو فروخت کیا جا رہا ہے، اور چین امریکی پابندیوں سے متاثر نہیں ہوتا۔

ٹرمپ ایران کے تیل کی سمگلنگ روکنے کے لیے ’گوسٹ فلیٹ‘ یعنی ایران کی زیر ملکیت کشتیوں کا پیچھا کر رہے ہیں، جو ٹرانسپونڈرز کے بغیر اور دیگر ممالک کے جھنڈے تلے کام کرتی ہیں تاکہ ایران کا تیل براہ راست برآمد کیا جا سکے۔

امریکی انٹیلی جنس ان کشتیوں کو پکڑنے کے لیے سرگرم ہے۔

ٹرمپ کا تیسرا مقصد مشرق وسطیٰ میں ایران کے پراکسی نیٹ ورک کو ختم کرنا ہے، جنہوں نے ناصرف امریکہ کے سٹریٹجک مفادات کو نقصان پہنچایا بلکہ بحیرہ احمر میں تیل کے انفراسٹرکچر اور شپنگ کنٹینرز پر ڈرون حملے بھی کیے۔

اس کے علاوہ ایران کی حمایت یافتہ پراکسی نیٹ ورک جیسے یمن میں حوثی، لبنان میں حزب اللہ اور عراق و شام میں ملیشیاؤں نے امریکہ کے اتحادیوں جیسے سعودی عرب، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی سکیورٹی کو بھی نقصان پہنچایا۔

ایران نے ہمیشہ اپنے مفادات کو پراکسی نیٹ ورک کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں آگے بڑھایا، جسے ’مزاحمت کا محور‘ کہا جاتا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ ایران کے پراکسی نیٹ ورک کو کمزور کر کے اس کی سٹریٹجک پوزیشن کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

یمن میں حوثیوں کے خلاف کارروائی اسی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ اگرچہ ایران کے پراکسی نیٹ ورک کو کافی حد تک کمزور کیا جا چکا ہے، تاہم ایران کے خلاف کسی بھی یک طرفہ کارروائی کے نتائج مشرق وسطیٰ کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔

اس سے پورے خطے میں میں عدم استحکام کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی۔

مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور کے سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ