ہوم پیچ»زاویہ»ٹرمپ میڈیا کی آواز کیوں بند کر رہے ہیں؟
ٹرمپ میڈیا کی آواز کیوں بند کر رہے ہیں؟
ایک ایسے وقت میں جب ٹرمپ مختلف ملکوں کے ساتھ تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں، انہیں میڈیا کی پہلے سے زیادہ حمایت چاہیے، مگر وہ اس میڈیا ہی کو خاموش کروانے پر تلے ہوئے ہیں۔
16 مارچ، 2025 کی اس تصویر میں واشنگٹن میں واقع وائس آف امریکہ (VOA) کی عمارت کا منظر، یہ ادارہ تقریباً 50 زبانوں میں نشریات پیش کرتا ہے (روئٹرز)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا الحره اور وائس آف امریکہ کو بند کرنے کا فیصلہ دراصل اُن اصولوں پر مبنی نہیں جنہیں وہ امریکہ کے اعلیٰ ترین قومی مفادات سمجھتے ہیں، بلکہ یہ فیصلہ دراصل میڈیا کے بارے میں اُن کے ذاتی رویے کا عکاس ہے یعنی یہ ذرائع ابلاغ کس حد تک اُن کی باتوں، خیالات اور بیانیے کے مطابق چلتے ہیں۔
اس لحاظ سے اداروں کو بند کرنے کا یہ فیصلہ اُن کئی اقدامات کا فطری تسلسل ہے جو صدر ٹرمپ پہلے ہی کر چکے ہیں اور جن سب کا مرکزی نکتہ ان کی پالیسیوں کی حمایت ہے۔
ان اقدامات میں اُن کے چنے ہوئے قریبی مشیر بھی شامل ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ٹرمپ کے بیانات اور مؤقف کا دفاع کریں۔ اس اصول کی بنیاد پر کہ جو کچھ ٹرمپ امریکہ کے مفاد میں سمجھتے ہیں اس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہ بات قابل فہم ہو سکتی ہے کہ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے اور سینیٹ و کانگریس میں رپبلکن پارٹی کی اکثریت کے بعد ملک چلانے کے لیے اپنی مرضی کے افراد کا انتخاب کیا۔
وہ وزرا اور منتظمین انہی لوگوں کو بناتے ہیں جن پر انہیں اعتماد ہو، حتیٰ کہ سرکاری میڈیا اداروں میں بھی۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے بیرونی دنیا کے لیے قائم امریکہ کے دو سب سے اہم سرکاری میڈیا اداروں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا، گویا کہ وہ اپنی پرانی لڑائیوں میں سے کسی ایک کو دوبارہ چھیڑ رہے ہوں۔
مثلاً ٹوئٹر کے ساتھ ان کی چپقلش یا واشنگٹن پوسٹ سے ان کی ناراضی، جس پر انہوں نے یہ کہہ کر تنقید کی کہ اس نے ’اپنا اعتبار کھو دیا ہے‘ صرف اس لیے کہ اس کے ایک صحافی نے اُن سے یہ سوال پوچھ لیا کہ روس کی یوکرین پر جاری بمباری کے بارے میں، ان کے صدر ولادی میر پوتن سے تعلقات کے باوجود، ان کی رائے کیا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں امریکہ کے نجی ذرائع ابلاغ کے بڑے حصے اور اس کے مستند اداروں کے ساتھ مسلسل ٹکراؤ رکھا۔
کئی معروف صحافیوں اور اینکرز نے ان کے خلاف کھل کر محاذ بنایا جب کہ کچھ ان کے ساتھ کھڑے رہے اور ان کی سیاسی و قانونی لڑائیوں میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
تاہم جو میڈیا ادارے حکومت کے فنڈ سے چلتے ہیں اور جن کی قیادت ٹرمپ انتظامیہ نے خود مقرر کی، انہوں نے نہ کبھی جانب دارانہ مؤقف اختیار کیا، نہ ہی ٹرمپ پر تنقید کی۔
بلکہ ان سرکاری میڈیا اداروں نے امریکی سیاسی منظرنامے کی حقیقت پر مبنی رپورٹنگ جاری رکھی اور ان کی اصل ترجیح ہمیشہ دنیا بھر میں اپنے اصل ناظرین تک مؤثر انداز میں رسائی رہی۔
وہ رسائی جو امریکی قومی مفاد کے عالمی تصور کے تابع ہے اور جو وائٹ ہاؤس میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتی۔
یہ بحث اپنی جگہ، لیکن اس سے اس بات پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ’سرکاری میڈیا‘ اپنی عالمی رسائی میں کس حد تک کامیاب یا ناکام رہا۔ خاص طور پر اس کے مقابلے میں جو روسی ادارے دنیا بھر میں اپنے بیانیے کو پھیلانے میں حاصل کر چکے ہیں۔
امریکہ وہ پہلا ملک نہیں تھا جس نے بیرونی دنیا کے لیے ریڈیو اور ٹیلی وژن نشریات کا سہارا لیا۔ اس میدان میں برطانیہ اس سے کہیں پہلے قدم رکھ چکا تھا جب اس نے برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کو 1923 میں قائم کیا اور بعد ازاں اسے دنیا کی مختلف زبانوں میں نشر کرنے کے قابل بنایا، جن میں عربی زبان بھی شامل ہے، جس میں نشریات کا آغاز تین جنوری، 1938 کو ہوا۔
سوویت یونین نے ریڈیو ماسکو 1929 میں قائم کیا اور جب 1993 میں یونین کے خاتمے کے ساتھ یہ بند ہوا تو اُس وقت یہ دنیا بھر میں 70 سے زائد زبانوں میں نشریات کر رہا تھا۔
بعد ازاں ریڈیو سپتنک نے اسی طرز پر روس فیڈریشن کے مفاد میں اس کا کردار سنبھالا اور پھر رشیا ٹوڈے چینل نے اس میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا۔
دنیا کے کئی دیگر ممالک نے بھی اپنی نشریاتی سروسز کا آغاز کیا اور اپنی نشریات ان خطوں کی جانب مرکوز کیں جہاں ان کے مختلف مفادات تھے۔
انہوں نے مختلف زبانوں، بشمول عربی میں بصری اور صوتی شعبے قائم کیے تاکہ اپنے بیانیے اور پالیسیوں کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکے۔
امریکہ نے اپنی عالمی نشریاتی سروس کے آغاز میں تاخیر کی اور یہ سلسلہ یکم فروری، 1942 کو شروع ہوا جب پہلی بار وائس آف امریکہ کی نشریات سنی گئیں۔
ایسا جاپان کے پرل ہاربر پر حملے کے دو ماہ بعد ہوا۔ اس حملے نے واشنگٹن کو احساس دلایا کہ عالمی تنازعے کے بیچ دنیا تک اپنی آواز پہنچانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
نشریات میں نشر ہونے والے پہلے الفاظ جرمن زبان میں صحافی ویلیم ہارلن نے ادا کیے۔ ’ہم آپ تک امریکہ کی آوازیں پہنچا رہے ہیں۔ ہم روزانہ آپ سے امریکہ اور جنگ کے بارے میں بات کریں گے۔ یہ خبریں ہمارے حق میں بھی ہو سکتی ہیں اور خلاف بھی، لیکن ہم آپ سے سچ بولیں گے۔‘
گذشتہ 83 برسوں میں یہ ریڈیو امریکی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتا رہا ہے۔ جس طرح ریڈیو ماسکو دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین کے ہاتھ میں کمیونزم اور ’قومی آزادی‘ کی جنگوں کے خلاف دفاع کا مؤثر ہتھیار رہا۔
اسی طرح وائس آف امریکہ ہر امریکی انتظامیہ کے لیے آزادی اور جمہوریت کی جنگیں لڑنے کا ذریعہ بن گیا۔اسی پلیٹ فارم سے بعد میں ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی، ریڈیو فری ایشیا اور دیگر کئی منسلک ادارے قائم ہوئے، جو آج دنیا بھر میں تقریباً 100 زبانوں میں نشریات پیش کر رہے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی بین الاقوامی تنازعات میں کمی نہیں آئی بلکہ دنیا کے ممالک نے ایک بار پھر اپنی میڈیا طاقت کو مضبوط کرنا شروع کر دیا، جو اب بڑی اور چھوٹی ریاستوں کے لیے نرم طاقت کا اہم ہتھیار بن چکی ہے۔
سی این این کی جانب سے خلیجی جنگوں کی براہِ راست کوریج کے بعد سیٹلائٹ چینلز نے عالمی میڈیا میں زبردست انداز میں قدم رکھا۔
اگلے ہی سال جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس نے مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ نیٹ ورک (ایم بی این) قائم کیا، جس کے تحت الحرہ کا آغاز ہوا۔
یہ وہی چینل ہے جسے اب صدر ٹرمپ نے خاموش کرانے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی اس کی ہم نوا وائس آف امریکہ کو بھی بند کرنے کا حکم دیا اور صرف اس بنیاد پر کہ ان کے بقول یہ دونوں ادارے ڈیموکریٹس کے حق میں جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
تاہم صرف یہ الزام کسی بھی صورت میں اتنے بڑے اقدام کا جواز فراہم نہیں کرتا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ صدر ٹرمپ کی ذاتی قیادت میں عالمی سطح پر فیصلہ کن محاذ آرائیوں اور مذاکرات میں مصروف ہے جہاں میڈیا کا کردار نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب روس نے مئی 2007 میں صدر ولادی میر پوتن کی خصوصی سرپرستی میں آر ٹی نیٹ ورک کا آغاز کیا، اور بیرون ملک نشریات پیش کرنے والے دیگر میڈیا اداروں کو بھی مضبوط بنایا۔
ایک حالیہ رپورٹ میں یورپی یونین نے دنیا بھر میں روسی میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا اور خاص طور پر سربیا میں رشیا ٹوڈے کے نئے ہیڈکوارٹر کے قیام کا ذکر کیا۔
رپورٹ میں ریڈیو سپتنک کو عالمی معلومات میں رد و بدل کا ایک آلہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’نووستی‘ ریاستی بیانیے کو تشکیل دینے اور فروغ دینے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔
یورپی رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ ’روس عالمی سطح پر اطلاعات کے نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی بیرونی مداخلت کی حکمتِ عملی دنیا کے لیے ایک مسلسل تشویش اور خطرہ بنی ہوئی ہے۔‘
امریکی بین الاقوامی میڈیا نے اپنی تشکیل اور ترقی سوویت یونین سے تصادم کے دور میں کی اور بعد ازاں روس کے خلاف اس جدوجہد کو جاری رکھا۔
کئی برسوں سے یہ میڈیا ایک اور بڑے پروپیگنڈا حریف کا سامنا کر رہا ہے یعنی ایران، جو درجنوں سیٹلائٹ چینلز کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے اور ان سب کے نعرے ایک ہی رخ پر مرکوز رکھتا ہے یعنی کہ امریکہ دشمنی۔
امریکی بیانیے کو عالمی سطح پر چیلنج کرنے والوں میں چینی میڈیا بھی شامل ہے، جو بظاہر خاموش مگر مؤثر انداز میں مقابلہ کر رہا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے ’وائس آف امریکہ‘ کو خاموش کرانے کے فیصلے پر ان سب نے اپنی خوشی چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
چین کے اخبار گلوبل ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ان چیف نے، جنہیں صدر شی جن پنگ کا قریبی سمجھا جاتا ہے، اس فیصلے کو بہت بڑا قدم قرار دیا۔
دوسری جانب ایرانی میڈیا نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اس ’ایران مخالف نشریاتی ادارے‘ کو بند کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔
جہاں تک ’رشیا ٹوڈے‘ کا تعلق ہے، تو اس نے ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد مطالبہ کر دیا کہ وہ اپنے پیشرو جو بائیڈن کی جانب سے امریکہ میں چینل پر عائد پابندیاں ختم کریں۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ ٹرمپ نے یہ فیصلے کیوں کیے؟ کیا واقعی جیسا کہ صدر کے سینیئر مشیر کیری لیک، جو وائس آف امریکہ اور الحرہ کی نگرانی کرنے والے ادارے پر کام کر رہی ہیں، نے کہا کہ ’امریکی انفارمیشن ایجنسی کرپٹ ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور بچائے جانے کے قابل نہیں رہی‘۔
یا پھر یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ وائس آف امریکہ پارٹی باز ادارہ بن چکا ہے؟ جیسا کہ مذکورہ مشیر نے الزام عائد کیا۔
یہ دونوں الزامات، چاہے وہ کرپشن کا ہو یا سیاسی جانب داری کے، اتنے بڑے فیصلے کا جواز فراہم نہیں کرتے اور نہ ہی عالمی میڈیا کا منظرنامہ ایسے قدم کا متحمل ہو سکتا ہے، خاص طور پر امریکہ کے اپنے مفادات، اثر انگیزی اور اخراجات کے تناظر میں۔
خاص طور پر جب یہ بات خود الحرہ کے ایک اعلیٰ عہدےدار نے کہی کہ اس چینل کے سالانہ اخراجات دو اپاچی ہیلی کاپٹروں کی قیمت سے بھی کم ہیں۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ ٹرمپ دراصل چاہتے کیا ہیں؟ یہ سوال اب بھی باقی ہے اور یہ فیصلہ بھی دیگر انتظامی اقدامات کی طرح امریکی میڈیا میں گونجتا رہے گا۔
بہت سے مبصرین کا یہ اندازہ بجا ہے کہ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ٹرمپ کس حد تک اپنے مشیر ایلون مسک کے تجویز کردہ متبادل میڈیا پر انحصار کریں گے۔ وہ متبادل میڈیا جسے مسک اور ٹرمپ کافی اور مؤثر سمجھتے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔