المیہ اور کیا ہو گا کہ ایک ریاست کے 80 ہزار سے زائد افراد، شخصیات، اہلکار اور جوان دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جائیں اور پھر بھی دہشت گردی کے خلاف بیانیہ نہ بن سکے۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ جنازے اُٹھانے والے کندھے جنازے اُٹھا اُٹھا کر جھک جائیں مگر مارنے والوں کے خلاف نفرت پیدا نہ ہو سکے، کیا بدنصیبی ہے کہ ہر دس سال بعد دہشت گردی روپ بدل کر آ جائے اورامن کا وقفہ مختصر سے مختصر ہوتا چلا جائے۔
جناب! دہشت گردوں نے نفرت کا بیانیہ بنا لیا ہے مگر ہم محبت کا بیانیہ نہیں بنا پائے۔ انتہا پسند میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک واضح پالیسی کے ساتھ لیس ہیں ہم اب تک دہشت گردوں کے حامی نہیں پہچان سکے۔
فسادی عوام کی پذیرائی کے لیے جھوٹ کا ہر حربہ آزما رہے ہیں مگر ہم سچ بتانے میں بھی کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ کچھ تو ہے جسے اب کھوجنا ہو گا، خود سے سچ کہنا ہو گا، انکار کی کیفیت سے نکلنا ہو گا۔
ارباب اختیار و اقتدار گذشتہ پالیسوں پر طعنہ زن ہوتے ہیں تو انتشار پسند مورچہ زن۔ ہر پانچ برس میں کئی آپریشنز جنم لیتے ہیں اور سوال پھر امن و امان کو درپیش خطرات کی صورت ہی نکلتا ہے۔ ہر بدلتی حکومت میں نیشنل ایکشن پلان کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے لیکن ہر بار اس ایکشن میں قوم کو شامل کرنے کی اہمیت منفی ہو جاتی ہے۔
2014 میں نیشنل ایکشن پلان مرتب ہوا جو تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ تھا اور نتیجہ ایک کامیاب آپریشن کی صورت ہوا جس کا نام ضرب عضب تھا۔ اسی طرح آپریشن راہ حق جس کے تحت تین ماہ میں سوات کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا اور وہاں کے باسی مختصر ترین وقت میں گھروں کو لوٹے۔ یہ آپریشن بھی وہاں کی سیاسی جماعتوں کی شمولیت اور رضامندی کے بغیر ممکن نہ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عوام میں پذیرائی رکھنے والی سیاسی جماعتیں جن کی جڑیں عوام میں ہوں اُن کی مدد کے بغیر کسی قسم کی فوجی آزمائش یا مشق محض غلطیوں اور سانحوں کو جنم دیتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بلوچستان سے طورخم کی سرحد تک ریاست ایک چیلنج سے نمٹ رہی ہے۔ صرف ایک برس میں ایک ہزار 758 حملے ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی اہلکار جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں جبکہ ہم ایک حملے سے دوسرے کے درمیان وقفے کو امن قرار دیتے ہیں۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک واضح اور مفصل ’سافٹ سٹیٹ‘ یعنی نرم ریاست کے بیانیے کی ضرورت ہے اور پھر ’ہارڈ سٹیٹ‘ یعنی سخت گیر ریاست کے تڑکے کی اہمیت۔ مگر پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک سافٹ ریاست کے طور پر ناکامی سے کیوں دوچار ہیں؟
ریاست کو ایک ہی وقت میں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف بلوچستان جہاں علیحدگی پسند سرگرم ہیں اور آئے دن بے گناہوں کا قتل کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف تحریک طالبان اور اس جیسی کئی تنظیمیں خیبر پختون خوا میں دہشت پھیلا رہی ہیں۔
اُن کا بیانیہ عوام کی جانب نرم اور سیکیورٹی اہلکار ہیں یعنی ٹی ٹی پی عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے اُنہیں اب نشانہ نہیں بنا رہی۔ کیا اُنہیں اس سلسلے میں عوام میں پذیرائی مل رہی ہے؟ یا اُنہیں اہلکاروں کو نشانہ بنانے میں عوام سے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے؟ طالبان کی انٹیلی جینس، کارروائی اور پذیرائی تینوں پہلوؤں کو جوڑنا ہو گا جبکہ عوامی سطح پر مزاحمت کے پہلوؤں پر بھی غور کرنا ہو گا۔
حال ہی میں ڈی آئی خان اور بنوں میں عوامی مزاحمت اور فوجی کارروائی کے بعد دہشت گردوں کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
خیبر پختونخواہ میں عوام دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں۔ پختونخوا کے بہادر عوام انتہا پسندی کا شکار ہیں اور اپنے سماجی ڈھانچے کی بربادی کا ادراک بھی رکھتے ہیں مگر وہاں ایسے ماحول کی ضرورت ہے جس میں سیاسی و عوامی جماعتیں ریاست کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔
کیا ریاست تحریک انصاف سمیت تمام عوامی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھ سکتی ہے؟ یاد رہے کہ وزیراعلی خیبر پختونخوا کسی بھی آپریشن کے مخالف ہیں البتہ اُن کو ساتھ لے کر چلنے کی صورت نتائج بہتر نکل سکتے ہیں مگر کیا عمران خان اس کی اجازت دیں گے اور کیا عمران خان دہشت گردوں کے خلاف عوامی بیانیہ بنائیں گے۔ یہ سب سوالات اہم ہیں؟
دوسری جانب بلوچستان میں دہکتی آگ علیحدگی پسندوں اور ریاست کے درمیان ہے۔
بلوچستان میں قدرتی اور عوامی سیاسی جماعتوں کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا گیا۔ عوام اور ریاست کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعتوں کو سیاسی نظام سے ’مائنس‘ کیے جانے کا عمل ایک عرصے سے جاری تھا اور اس تابوت میں آخری کیل 2015 میں ڈاکٹر مالک کی حکومت برطرف کر کے ٹھونک دی گئی۔ اب مصنوعی اور غیر فطری سیاسی ماحول میں اصل قیادت کہیں اور چلی گئی ہے، بات بہت آگے نکل گئی ہے اور اس بار تھوڑے سے بات نہیں بنے گی۔
گذشتہ کالم میں سندھ میں نہروں کے مسئلے پر لکھا تھا کہ یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو خدانخواستہ وفاق میں شگاف ڈال دے گا۔ پنجاب میں مذہبی منافرت اور انتہاپسندی ختم نہ ہوئی تو ایک نیا بحران جنم لے گا۔ آئے دن پنجاب میں احمدیوں کے خلاف نفرت آمیز اقدامات اور انتہاپسند تنظیموں کی کاروائیوں سے صوبے میں لاوا پک رہا ہے۔ اس سب کا تدارک متفقہ نیشنل ایکشن پلان سے ہو سکتا ہے۔
بلوچستان کے نوجوان کو سیاسی دھارے میں لانا ہو گا جبھی قومی دھارا تشکیل پائے گا۔ اُس کے لیے لیپ ٹاپ سکیم سے زیادہ آغاز حقوق بلوچستان جیسے پیکج کی ضرورت ہے۔ ریاست جس خطرناک موڑ پر کھڑی ہے وہاں اسے کثیر الجہتی اقدامات کی ضرورت ہے مگر اس سب سے پہلے ریاست کو انکار کی کیفیت سے نکلنا ہو گا۔ دلوں اور ذہنوں کو جیتنے کی کوئی ترکیب لگانا پڑے گی اور وہ ترکیب صرف سیاست کے رستے ہی نکل سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔