کیا گوروں کے سیاہ دور کا آغاز ہو گیا؟

گورے رنگ کا جو رعب و دبدبہ گورا صاحب ہم میں چھوڑ گیا وہ پون صدی گزرنے کے باوجود پورے جوبن پر ہے۔

24 فروری 2025 کو بولیویا-برازیل سرحد پر پورٹو سواریز کے قریب چینی فنڈز سے چلنے والے سٹیل انڈسٹریل کمپلیکس ’میوٹن‘ کا ایک فضائی نظارہ۔ یہ جنوبی امریکی ملک بولیویا میں پہلا چینی فنڈڈ سٹیل انڈسٹریل کمپلیکس ہے (اے ایف پی)

ہم نے جب سے ہوش سنبھالا یہی سنا اور پڑھا کہ دنیا میں اگر کچھ جدید ہے تو وہ گوروں کے دیس میں ہے۔ خوش حالی، تعلیم، سائنس ٹیکنالوجی، جمہوریت اور انسانی حقوق۔ یہ سب ان کی محنت کا نتیجہ ہیں۔

ایشیائی ممالک میں یہ بھی ایک عمومی سوچ ہے کہ گوروں کے ممالک میں خام تیل، جدید فیشن کے کپڑے، برسہا برس چلنے والے جوتے، بہترین چاکلیٹ، اعلیٰ سکن کیئر کی کریمیں، شاندار پرفیوم، دیرپا مشینری، منفرد ٹیکنالوجی، مستند کمپنیوں کے وٹامنز اور دیگر دوائیں یہاں سب کچھ اعلیٰ ہی ملتا ہے۔

ہمارے تئیں گوروں سے منسلک تمام چیزیں تو اعلیٰ ہیں ہی، خود گورے کتنے زبردست ہیں۔ گورے رنگ سے ہم ایشیائی لوگوں کا ناطہ پرانا اور بڑا عجیب ہے۔ گورے رنگ کا جو رعب و دبدبہ گورا صاحب ہم میں چھوڑ گیا، وہ پون صدی گزرنے کے باوجود پورے جوبن پر ہے۔

ایک طرف ہمیں گوروں کی ہر میدان میں برتری کے قصے سننے کی عادت رہی، دوسری طرف خود گوروں کو بھی وائٹ سپریمیسی یعنی سفید فام نسل کی فوقیت جیسی سوچ کی گندی لت پڑی تھی، مگر وقت کا گجر اب کچھ اور ہی خبر سنا رہا ہے۔

اوپر اوپر سے تو یورپ لندن امریکہ آج بھی یورپ لندن امریکہ ہی ہیں، لیکن بند کمروں میں ان کے معاشی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ اس یورپ کا خواب کیا ہوا، جسے ابھی کئی صدیوں تک راج کرنا تھا۔

یہاں یورپی تحقیقاتی اداروں میں سٹڈی ہو رہی ہے کہ ایشیا کا اگلا معاشی قدم کیا ہو گا۔ چین اب کون سی نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائے گا؟ انڈیا کی کون سی نئی فارما کمپنیاں ایسی دوا لانے والی ہیں، جس سے بڑی مغربی کمپنیاں اپنی مارکیٹ کھو دیں گی۔

قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے معاشی اور سیاسی عزائم مزید کس حد سے بڑھ سکتے ہیں۔ افریقہ میں امن ہو گیا تو جو خام مال نچوڑ رہے ہیں، اس کا کیا ہو گا؟

یورپ  میں باوجود ہزار کوشش اب تک چین کے خلاف جذبات تو ابھر سکے ہیں لیکن کوئی ٹھوس معاشی پالیسی نہیں بن سکی، بنے بھی کیسے یہاں کی مارکیٹ امپورٹ کے بغیر بیٹھ جائے۔ شروع میں چین کی الیکٹرانک گاڑیوں کو قبول کرنے میں وقت لگا اب حالت یہ ہے کہ  امریکی برانڈ ٹیسلا اور مشہور جرمن گاڑیوں کی فروخت رواں برس 45 فیصد نیچے آئی ہے اور چینی گاڑیوں کی فروخت میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یورپ میں بات بے بات پہ لگے قوانین، تنخواہوں کی اونچی مد، مزدور طبقے کا عنقا ہونا اور ٹیکسوں کی بھرمار یہاں کی انڈسٹری کی کمر توڑنے کو کافی ہے۔

وہ دنیا جس نے پچھلے تقریباً 200 سال گوروں کی سیاسی اور معاشی برتری کو دیکھا اب اپنی روش بدل رہی ہے۔ وہ دنیا جس میں امریکہ نے جنگوں کی مارکیٹ بنائی اور اس مارکیٹ میں اسلحے کو بطور برانڈ بیچ کر، جنگ زدہ ملکوں کے وسائل نوچ کر اپنی معیشت کو تقویت دی۔ اب اسی جنگ زدہ  دنیا میں معیشت کے زور پہ نئے کھلاڑی ابھر گئے ہیں۔

نئی معاشی ریٹنگ اور پیش گوئی کے مطابق چین اور انڈیا کے بعد انڈونیشیا، برازیل، جنوبی کوریا، میکسیکو، ترکی اور سعودی عرب بھی معاشی بازی پلٹنے کے قریب ہیں۔ یہ سب ممالک نان وائٹ یعنی غیر سفید فام ہیں اور یہ نئے کھلاڑی نئے قواعد سے کھیل اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گوروں میں اچھی خاصی سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں بیٹھ کر شاید اس بات کی شدت کا اندازہ ویسے نہیں ہوتا جتنا یہاں یورپ کی روزمرہ زندگی میں نظر آ رہا ہے۔

امریکہ میں حالیہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے ایک عجیب سی غیر یقینی ہے۔ گوروں کے وہ ملک جو افغانستان، عراق میں نیٹو کی افواج اور مشترکہ فنڈنگ بھیج کر نچیت ہو جایا کرتے تھے، اب اپنے آنگن میں چھڑی یوکرین جنگ کے شعلوں کی تپش برداشت نہیں کر پا رہے۔

یورپ اربوں یوروز لگا چکا ہے اور تقریباً 800 ارب یوروز مزید جھونکنے کو تیار ہے، امریکہ پر تکیہ کر کے یورپ یوکرین کی جنگ چھیڑ تو بیٹھا، اب اس کا منطقی انجام خود یورپ کو بھی سمجھ نہیں آ رہا۔

اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اپنی مضبوط معیشت کے لیے مشہور ناروے کے ایک مرکزی ضلع نوردرے فولو میں اس وقت یہ بحث جاری ہے کہ ضلعی حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے، جنہیں پورا کرنے کے لیے رہائشیوں پر مزید ٹیکس لگانے کا سوچا جا رہا ہے۔ یہ غور ہو رہا ہے کہ کون سے نئے پراجیکٹ روک لیے جائیں یا کس اولڈ ایج ہوم کی فنڈنگ کم کریں کہ ضلع اپنے اخراجات پورے کر سکے۔ 

یہاں روزمرہ کی سلاد کے لیے کھیرے کلو گرام نہیں گنتی کے حساب سے بکتے ہیں، اس وقت ایک کھیرے کی قیمت ڈبل ہو کر تقریباً پاکستانی 600 روپے ہو گئی ہے۔ آگے خود حساب لگا لیں۔ اب اسے یورپ کے پھوٹے نصیب کہہ لیں، وقت کا چکر یا ایشیا کے دِلَدر دور ہونے کا آغاز مان لیں۔

سوچنا تو اصل میں یہ ہے کہ کیا دنیا کی دو بڑی معیشتوں یعنی چین اور انڈیا کے بیچ موجود پاکستان بھی معاشی مقابلے کے اس دور میں کہیں کھڑا ہونے کو تیار ہے؟ کیا گورا صاحب کا بھوت اترا؟ کیا ہمارا نام بھی کالی پیلی نیلی لسٹوں سے پرے کسی گنتی میں آئے گا ؟ کیا ہمارے پڑوسیوں کی محنت کا پھل ہمارے آنگن میں بھی گرے گا؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ