کینیڈا کو ٹرمپ کے مقابلے میں مارک کارنی جیسا رہنما چاہیے تھا

مارک کارنی اسی طرح سخت مزاج، ذہنی طور پر مضبوط اور جھوٹ کے مقابلے میں حقائق کے ساتھ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کینیڈا کے نومنتخب وزیر اعظم مارک کارنی (دائیں) اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ (اے ایف پی)

مائیکل ولف کی نئی کتاب آل اور نتھنگ (All or Nothing) جو ڈونلڈ ٹرمپ کی شاندار انتخابی جیت پر لکھی گئی، میں بتایا گیا ہے کہ نئے امریکی صدر طویل عرصے تک یہ سمجھتے رہے کہ ان کے جیتنے کے امکانات نہیں ہیں۔

ٹرمپ کا خیال تھا کہ جو بائیڈن میدان میں زیادہ دیر تک نہیں ٹکیں گے، لیکن انہیں توقع تھی کہ مشیل اوباما ان کی جگہ سنبھال لیں گی۔

ٹرمپ مشیل اوباما سے خوفزدہ تھے۔ وہ پرنسٹن یونیورسٹی اور ہارورڈ لا سکول کی ذہین گریجویٹ کا سامنا کرنے کا کوئی خاص شوق نہیں رکھتے تھے۔

اب کینیڈا کی لبرل پارٹی نے بھی مشیل اوباما جیسی ایک اور شخصیت کو وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔

مارک کارنی شاید اوباما کی نمایاں ہمدردی اور عوام سے جڑنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں لیکن وہ بھی اسی طرح سخت مزاج، ذہنی طور پر مضبوط اور جھوٹ کے مقابلے میں حقائق کے ساتھ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وہ تکنیکی تفصیلات پر مہارت رکھنے والے، خود اعتماد اور پراعتماد ہیں، بالکل ویسے ہی مخالف، جن سے ٹرمپ کو ہمیشہ مشکل پیش آتی ہے۔

مارک کارنی کے پیشرو، جسٹن ٹروڈو، جذباتی اور قوم پرستی کے حامی تھے، لیکن ان کی جذبات میں بہہ جانے کی عادت، بعض اوقات آنسوؤں تک پہنچ جانے کی، ٹرمپ کی جارحیت کے لیے آسان ہدف بن گئی۔ کارنی بالکل مختلف ہیں۔

مارک کارنی بھی ٹرمپ کی طرح روایتی سیاست دان نہیں۔ وہ انتہائی کامیاب انویسٹمنٹ بینکنگ کے پس منظر سے آئے اور گولڈمین ساکس میں کام کرتے ہوئے خطیر دولت کمائی۔

ٹرمپ بینکاروں کو ہمیشہ قدرے محتاط نظر سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس وہ پیسہ ہوتا ہے جس کی ٹرمپ کو خواہش ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ ٹرمپ کی شیخیوں کو بآسانی پرکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

مارک کارنی نے 2008 کے مالی بحران میں کینیڈا کو سنبھالا اور بطور گورنر آف سینٹرل بینک وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل کی۔

ان کی بحران کو سنبھالنے کی مہارت نے انہیں برطانیہ کے اس وقت کے چانسلر، جارج اوسبورن، کی توجہ کا مرکز بنا دیا، جنہوں نے انہیں بینک آف انگلینڈ کا اگلا گورنر بننے کی پیشکش کی۔

’راک اسٹار سینٹرل بینکر‘ نے بینک آف انگلینڈ جسےاولڈ لیڈی بھی کہا جاتا ہے، میں بھی یہی کارنامہ انجام دیا۔

انہوں نے برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے اقتصادی خطرات کے بارے میں درست پیش گوئی کی اور پھر بریگزٹ کے بعد مالیاتی استحکام بحال کر کے لندن کے مالیاتی مرکز کو پرسکون رکھا۔

بریگزٹ کے حامیوں نے ان پر ذاتی حملے شروع کر دیے۔ جیکب ریس موگ نے انہیں ’پروجیکٹ خوف کا سب سے بڑا پجاری‘ کہا لیکن کارنی اپنے مؤقف سے ہٹنے والے نہیں تھے۔

بینک آف انگلینڈ سے سبکدوش ہونے کے بعد، مارک کارنی نے اقوام متحدہ کے مالیات اور ماحولیاتی تبدیلی کے نمائندے کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس مؤقف کی وکالت کی کہ مالیاتی اداروں کو ماحولیاتی بحران سے نمٹنے میں زیادہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

ان کی یہ تنقید امریکی قیادت پر بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ وہ سیاست دانوں اور مالیاتی منڈیوں پر قلیل مدتی سوچ اپنانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

2021 میں، اپنی کتاب ’ویلیو(ایس): این اکنامسٹ گائیڈ ٹو ایوری تھنگ دیٹ میٹرز‘ میں کارنی نے اسی نقطہ نظر کی وضاحت کی کہ مالیاتی سرمائے پر مبنی سرمایہ داری نے سماجی ضروریات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
یہ کچھ جانا پہچانا نہیں لگتا؟

یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ کے مار اے لاگو کے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر مارک کارنی کی کتاب رکھی ہوگی، لیکن انہیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر کارنی کی کوئی کمزوری ہے جو ممکنہ طور پر انہیں کینیڈین الیکشن میں نقصان پہنچا سکتی ہے، جب بھی انتخابات ہوں گے، کیوں کہ انہیں عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے ایک انتخابی جیت درکار ہوگی، تو وہ عام لوگوں سے جڑنے میں ناکامی ہو سکتی ہے۔

ٹرمپ کے لیے، ظاہر ہے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔

لیکن کارنی ٹرمپ کے ساتھ ٹکرانے سے نہیں گھبرائیں گے۔

وہ وہی غلطیاں نہیں دہرائیں گے جو وولودی میر زیلنسکی نے کیں، جب انہوں نے ٹرمپ اور جے ڈی وینس کو وائٹ ہاؤس کے کیمروں کے سامنے خود پر حاوی ہونے کا موقع دے دیا۔

مارک کارنی نے کہا کہ ’مجھے بحرانوں کو سنبھالنے کا تجربہ ہے، ایسے حالات میں آپ کو بحران سنبھالنے کی مہارت اور مذاکرات کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔‘ 

گذشتہ ماہ ایک انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا: ’صدر ٹرمپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ کینیڈا دباؤ میں آ جائے گا، لیکن ہم دھونس دینے والے شخص کے سامنے جھکنے والے نہیں۔ ہم ڈٹ کر کھڑے رہیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم متحد ہیں اور ہم جواب دیں گے۔‘

یہ آخری جملہ واشنگٹن میں بلند آواز میں گونجے گا۔

جیسا کہ ٹیرف کے معاملے میں پہلے ہی ثابت ہو رہا ہے، مالیاتی منڈیاں ٹرمپ کے سب سے بڑے مخالف بن سکتی ہیں، اور جہاں تک ان کا تعلق ہے، مارک کارنی جانتے ہیں کہ انہیں کیسے سنبھالنا ہے اور کن عوامل کو کنٹرول کرنا ہے۔

وہ مارکیٹ کی زبان بولتے ہیں۔ ٹرمپ کو یہ پسند نہیں آئے گا۔

جب مارک کارنی لیبر پارٹی کے کانفرنس میں بڑی سکرین پر نمودار ہوئے اور پارٹی کی حمایت کی، تو میرے دائیں بازو کے ایک اخبار نے رابطہ کیا۔

وہ کارنی کا ایک پروفائل چاہتے تھے، کیوں کہ ان کے بقول ’وہ ہماری نفرت کی تمام وجوہات پر پورا اترتے ہیں۔‘

میں نے پوچھا کہ ’کون سی وجوہات؟‘

جواب ملا کہ ’لیبر پارٹی کا حامی، یورپی یونین چھوڑنے کا مخالف ماحولیاتی مہم چلانے والا، ہپی خاتون کا شوہر، امیر اور غیر ملکی۔‘

یہ فہرست کسی ایسے شخص کے لیے بُری نہیں جو ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہا ہو۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے ان کی پیشکش ٹھکرا دی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ