یہ ہو کیا رہا ہے؟

جب معاملات کو اپنے چشمے سے دیکھا جائے گا اور آہنی ہاتھوں اور سخت اقدامات کے بارے میں سوچا جائے گا تو پڑوسیوں کا کیا شکوہ؟ 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 21 مارچ 2025 کو وائٹ ہاؤس سے روانہ ہوتے وقت پریس سے بات کر رہے ہیں (اینابیل گورڈن / اے ایف پی)

 دنیا کے ہر کونے سے آنے والی خبر سن کے صرف یہ ہی بات ذہن میں آتی ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ 

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے یو ایس ایڈ، وائس آف امریکہ، محکمہ تعلیم ایسے بند کیے کہ جیسے یہ بندوبست کبھی تھے ہی نہیں۔ حیرت اور ایسی حیرت کہ وائس آف امریکہ میں کام کرنے والے دوستوں سے کسی بھی قسم کا اظہار کرنے کی ہمت بھی نہ ہوئی۔ 

اس کے ساتھ ہی امریکہ کی ویزہ پالیسی کی نئی شکل نے ان لوگوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا، جنہوں نے بستر سے اٹھ کے لاؤنج یا باتھ روم تک ہی جانا ہوتا ہے، یعنی ہمارے وہ بچے جو پڑھنے کے لیے امریکہ جانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ 

گرین لینڈ کے لیے صدر ٹرمپ کے عزائم، کینیڈا کے لیے خواہشات اور غزہ کے لیے منصوبے، ان  اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ خواب بھی جلد ہی حقیقت بن جائیں گے اور امریکہ سکینڈینیویا سے لے کر مشرق وسطی تک اپنے جھنڈے گاڑ دے گا۔ 

اس میں حیرت اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ تاریخ کے دو ورق ہی الٹ کر دیکھ لیجیے، کالونیل دور زیادہ پرانی بات نہیں۔ کیا کیا ریاستیں اور کیا کیا مملکتیں اس بھنور میں غرق ہوئی تھیں۔ 

امریکی خارجہ پالیسی اب واضح طور پہ نظر آرہی ہے۔ ’سب سے پہلے امریکہ۔‘ بین الاقوامی سیاست میں قریباً ہر طرف کچھ ایسے ہی معاملات ہیں۔ قومی مفاد،  انسانی حقوق سے آگے ہے۔ 

انڈیا میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہماری نسل جب سکول میں تھی تو انڈیا کے حالات دیکھ کر یہ سوال اکثر ذہن میں آتا تھا کہ بھئی تقسیم بلاوجہ ہی ہوئی، ادھر رہتے یا ادھر، فرق کیا پڑتا ہے؟

مگر دنوں کے اندر وہاں ’بابری مسجد‘ کا تنازع اٹھا اور آج صورت حال یہ ہے کہ لگتا ہے خبریں لکھنے والے ہمارے بدنام زمانہ ’مطالعہ پاکستان‘ کے صفحوں سے نکل کر آئے ہیں۔ 

مودی کی تقریر اور لہجہ چلا چلا کر کہتا ہے ’پاکستان ناگزیر تھا۔‘ اورنگزیب عالمگیر کے مقبرے پہ نیا شوشا اتنا پریشان کن ہے کہ ’آگ کے دریا‘ کا جملہ پھر یاد آجاتا ہے کہ ’ابوالمنصور کمال الدین کس طرح ہندوستان میں داخل ہوا اور کس طرح ہندوستان  سے نکل گیا۔‘

ان ہی حالات میں جعفر ایکسپریس پہ بلوچ لبریشن آرمی کے حملے اور وہاں ہونے والے کشت و خون کی خبریں آتی ہیں اور سوالات مزید الجھ جاتے ہیں۔ تقسیم کے بارے میں  مقبول ادب میں ’بلوچ رجمنٹ‘ کا ذکر ہوتا تھا کہ مغرب کی طرف آنے والی کٹتی ہوئی ٹرینوں کو بلوچ رجمنٹ کے جوان بچانے آتے تھے۔ 

بلوچ رجمنٹ سے بلوچ لبریشن آرمی تک، یہ بھی ایک کہانی ہے اور نئے  نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا یہ بھی ’ناگزیر‘ تھا؟ 

آج بلوچ یکجہتی آرگنائزیشن نے ہڑتال کی کال دے رکھی ہے،  غزہ میں فائر بندی کے بعد پھر اس سے زیادہ فلسطینی جارحیت کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ جانے کیا کیا ناگزیر تھا اور جانے کیا کیا ناگزیر ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بظاہر یوں لگتا ہے کہ بہت سامنے کی باتیں تب الجھتی ہیں جب بڑی تصویر کی بجائے کسی روزن سے منظر دیکھ کے حکمت عملی بنائی جائے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر چکی ہے۔ 

خارجہ پالیسی کے اہم ترین ٹول، غیر ملکی امداد کو بند کرنا ایک واضح پیغام ہے۔ دنیا بھی بدل رہی ہے۔ ہمیں بھی بدلنا ہو گا۔ سختی سے اگر کچھ حاصل ہوتا تو بنگلہ دیش آج بھی پاکستان ہوتا۔ 

جن پڑوسیوں کے بارے میں ہمارا کہنا ہے کہ ہمارے آنگن میں آگ لگا رہے ہیں، ان کے ہاں تو ایسے ایسے آتش فشاں سلگ رہے ہیں کہ اگر پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی ’ذاتی مفاد‘ کی بجائے ’قومی مفاد‘ پہ بنائی جائے تو آس پڑوس میں اپنی آگ ہی کافی ہے۔ 

لیکن جب معاملات کو اپنے چشمے سے دیکھا جائے گا اور آہنی ہاتھوں اور سخت اقدامات کے بارے میں سوچا جائے گا تو پڑوسیوں کا کیا شکوہ؟ 

بدلتی دنیا میں سوا سو سال پرانے اداروں کے نظریات کے ساتھ نہیں چلا جا سکتا۔ بات کرنا ہی پڑے گی۔ میز پہ آنا ہی پڑے گا چاہے کتنی دیر لگے۔ دیر جتنی زیادہ ہو گی، انسانی المیہ اتنا ہی بڑا ہو گا۔ جھگڑے نمٹتے ہیں تو ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ ماحولیات کی طرح، سیاست، سماج، معیشت سب ہی کا ایک ’ایکو سسٹم‘ ہوتا ہے۔

کسی بھی ’ایکو سسٹم‘ کو تباہ کر کے کوئی فرد، ادارہ، نظام، اکیلا باقی نہیں رہ سکتا۔ جس طرح ’ایکو سسٹم‘ کی بقا، تنوع میں ہے، اسی طرح سماج، ملک، ریاست، معیشت، سب کی بقا تنوع اور اور بقائے باہمی میں پوشیدہ ہے۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ ہتھ ہولا رکھنا ہے یا گرفت آہنی کرنی ہے، آپ سے زیادہ کون جانتا ہے۔

ہمارے جیسے لوگ زیادہ سے زیادہ سوال کر سکتے ہیں اور سوالوں سے اگر کوئی ملکوں کی تقدیریں بدل سکتا تو ہم سوال کرتے ہی رہتے۔ بات تب بنتی ہے جب ان سوالوں کے جواب دیے جاتے ہیں۔ 

چنگاری کو بجھا دیا جائے تو الاؤ نہیں سلگتا، لیکن اگر چنگاری پہ تیل ڈالا جائے تو پڑوس سے خس و خاشاک اڑ کر بھی آجاتے ہیں۔ آگ بجھائیں، سوالوں کے جواب ڈھونڈیں اور بدلتی دنیا میں اپنا نیا کردار کھوجیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ