لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر حمزہ شہباز کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے جمعرات کو پی ٹی آئی اور ق لیگ کی حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران یہ فیصلہ سنایا۔
لارجر بینچ نے فیصلہ چار ایک سے سنایا جبکہ جسٹس ساجد محمود بھٹی نے مشروط اختلاف کیا۔
عدالت کے آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نئے انتخاب کا حکم نہیں دیا جاسکتا، دوبارہ انتخاب کا حکم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہوگا اور پریزائڈنگ افسر کے نوٹیفکیشن کو کالعدم بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔
ہائی کورٹ نے پریزائڈنگ افسر کو پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کرنے کا حکم دیا۔
فیصلے کے مطابق دوبارہ گنتی میں جس کی اکثریت ہوگی وہ جیت جائے گا، تاہم حمزہ شہباز اور ان کی کابیبہ کے اقدامات اور فیصلوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔
عدالت نے یکم جولائی کو صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا بھی حکم دیا۔
تاہم جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا کہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ کے طور پر بحال کیا جائے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز 16 اپریل کو پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے اور عدالتی حکم پر حلف اٹھایا تھا، جس کے بعد اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے ان کا حلف غیر آئینی قرار دے کر دوبارہ انتخاب کرانے کی اپیل کی تھی۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے حلف کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں پانچ رکنی فل بینچ نے کی، جس میں جسٹس شاہد جمیل خان، جسٹس شہرام سرور چوہدری، جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ شامل تھے۔
لاہور ہائی کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر کم و بیش دو ماہ تک ان اپیلوں پر سماعت کی۔
پنجاب حکومت کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت اور وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر احمد پیش ہوئے جبکہ اپیل کنندگان کی طرف سے امتیاز صدیقی اور علی ظفر ایڈووکیٹ نے پیروی کی۔
28 جون کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے اس معاملے پر ایڈدوکیٹ جنرل پنجاب کو حکم دیا کہ ’وہ وزیراعلیٰ سے پوچھ کر بتائیں کہ وزیراعلیٰ کے دوبارہ انتخاب کے لیے اجلاس کی کون سی تاریخ دی جائے۔‘
تاہم ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ ’ہمیں ایک دن اور دے دیں تاکہ وزیراعلیٰ کو تمام صورت حال سے آگاہ کر دیں،‘ جس پر عدالت نے ایک روز کی مہلت دی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل بھی دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور دیگر حکومتی وکلا ان اپیلوں کے خلاف دلائل دے چکے ہیں، جن میں کہا گیا کہ حمزہ شہباز کا انتخاب عدالتی حکم پر ہوا تھا اور حلف بھی عدالت کے حکم پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو اس لیے لینا پڑا کہ صدر مملکت اور سابق گورنر پنجاب اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے حلف لینے کو تیار نہیں تھے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ حمزہ شہباز کی موجودگی میں الیکشن غیر آئینی ہو گا، لہذا حمزہ شہباز کو ہٹا کر انتخابات کے لیے 10 روز کا وقت مقرر کیا جائے، جس پر جسٹس شاہد جمیل خان نے قرار دیا کہ وزیراعلیٰ کے دوسرے انتخابات میں 25 اراکین کو نکال کر انتخاب کروانا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 16 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں جن 25 اراکین نے ووٹ دیا تھا ان کو ریورس نہیں کیا جا سکتا جبکہ الیکشن کمیشن نے جن پانچ اراکین کا نوٹیفکیشن جاری کیا ان کو بھی شامل کیا جائے۔
چند دن پہلے ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کی پانچ مخصوص نشستوں پر ڈی سیٹ ہونے والے منحرف اراکین کی جگہ نئے اراکین کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم بھی دے چکی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم
حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے دوران 371 کے ایوان میں سے 197 ووٹ ملے تھے جبکہ انہیں ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 ارکان اسمبلی جب ڈی سیٹ ہوئے تو اس کے بعد پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تعداد 346 رہ گئی۔
پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کے صدر اخلاق باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس وقت پنجاب اسمبلی میں حکومتی جماعت ن لیگ کے پاس 166 سیٹیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے سات، تین آزاد اور ایک راہ حق پارٹی کا ووٹ بھی ن لیگ کے پاس ہے۔ اس طرح حکومتی اتحاد کے ووٹوں کی تعداد 177 بنتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو پنجاب اسمبلی میں 183 نشستیں ملی تھیں لیکن 25 منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی نشستیں 158 رہ گئیں۔
اس وقت پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 158 اور ق لیگ کے 10 ارکان ملا کر اپوزیشن کے 168 ارکان بنتے ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کو پانچ مخصوص نشستیں مل بھی جائیں تو اپوزیشن اتحادکی تعداد173 بنتی ہے یعنی مخصوص نشستوں کے بعد بھی حکومتی اتحاد کو اپوزیشن پر چار ووٹوں کی برتری حاصل رہے گی۔