رکشہ، کراچی کی زندگی کا اہم حصہ ہے، سستا، تیز رفتار، اور ہر گلی کوچے میں دستیاب۔ لیکن ’رکشہ گینگ‘ اس تین پہیوں والی سواری کو جرائم کے لیے استعمال کر رہا تھا۔
کراچی میں پہلے کورولا گینگ کا چرچا تھا، اور اب رکشہ گینگ سامنے آیا ہے۔ یہ گینگ نہایت ہوشیاری سے اپنی کارروائیاں انجام دے رہا تھا اور سواریوں کو نہ صرف لوٹتا بلکہ خوف اور بےیقینی کا شکار بھی بنا رہا تھا۔
کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں 18 نومبر کو پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے انتہائی مطلوب ملزمان کو گرفتار کیا جن سے آٹھ موبائل فون، دو پستول اور رکشہ برآمد ہوا۔
گرفتاری کے بعد تفتیش کا سلسلہ شروع ہوا جس میں یہ انکشاف ہوا کہ گرفتار ملزم رکشہ ڈرائیور ہے جو روزمرہ کی بنیاد پر رکشے میں سواریاں اٹھاتا تھا۔
کارروائی میں رکشہ گینگ کے سرغنہ سمیت چار مطلوب ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کس طرح وارداتیں کرتا رہا اور اس کا سرغنہ کون ہے؟
سب ڈویژن پولیس افسر عابد فضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پولیس کو ایک کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ علاقے میں کچھ مشکوک افراد رہائش پذیر ہیں، اس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے گھر میں چھاپہ مارا اور ان ملزمان کو گرفتار کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’گرفتار ملزمان کی شناخت رحیم بخش، صابر، عاشق اور آصف کے نام سے ہوئی۔ رحیم بخش رکشہ گینگ کا سربراہ ہے اور حال ہی میں جیل سے رہا ہوا ہے۔‘
پولیس اہلکار نے مزید بتایا: ’رہائی کے بعد رحیم بخش نے رکشہ گینگ بنایا۔ رکشہ ڈرائیور آصف مختلف مقامات سے سواریاں اٹھاتا اور یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ سواری کے پاس قیمتی اشیا جیسا کہ سونے کے زیورات مہنگا موبائل موجود ہے یا نہیں۔
’اس کے بعد مسافر کے پاس کیش اور قیمتی سامان کی اطلاع گینگ کے سرغنہ کو کوڈ ورڈ میں دی جاتی، گفتگو سے بظاہر یہ محسوس ہوتا کہ اپنے گھر میں کسی سے بات کی جا رہی ہے، اور پھر دوران سفر ہی مسافر کو لوٹ لیا جاتا۔‘
عابد فضل کے مطابق: ’عاشق اور رحیم سے تفتیش کی گئی جس کے بعد یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا تاہم ملزمان کا ریمانڈ نہیں لیا گیا۔‘
گرفتار گینگ کا سرغنہ رحیم بخش 18 سال سے زائد عرصہ جیل میں سزا کاٹ کر آیا ہے۔ گرفتار ملزم نے ساتھی سمیت عدالت سے فرار ہوتے ہوئے پولیس اہلکار کو جان سے مارا تھا او وہ زخمی حالت میں گرفتار ہوا تھا۔
ملزم رحیم بخش کو پولیس نے 70 لاکھ روپے کی ڈکیتی میں 1998 میں گرفتار کیا تھا، گرفتار ملزمان کا مزید مجرمانہ ریکارڈ چیک کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
شہر میں اور کتنے جرائم پیشہ افراد کے گینگ بنتے رہے ہیں؟
جرائم کی خبریں رپورٹ کرنے والے صحافی شاہ میر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ماضی میں بھی کئی گینگ سامنے آئے، جن میں سفید کورولا گینگ بھی شامل تھا جو کہ ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے علاقے ڈیفنس اورملیر میں چوری کی وارداتیں کرتا تھا۔ یہ گینگ چوری کے ساتھ خواتین کو ہراساں کرنے، ان کے ریپ سمیت دیگر جرائم میں بھی ملوث تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک گینگ میاں بیوی کا بھی سامنے آیا تھا جو شہریوں کو چکما دے کر انُ سے لوٹ مار کرتے رہے ہیں اور اب رکشہ گینگ بھی منظر عام پر ہے۔
پولیس کی کامیاب کارروائیوں کے بعد بھی شہر میں جرائم کی روک تھام نہیں ہو رہی جو تشویش ناک ہے۔
سیٹیزن پولیس لائزن کمیٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق: ’کراچی میں رواں سال چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سب سے زیادہ موٹر سائکلیں چوری ہوئی جس کی تعداد 35 ہزار سات سو 43 رہی، 16ہزار سات سو 77 موبائل فون چھینے گئے جبکہ 2دو سو سے زائد گاڑیاں چھینی اور 15 سو سے زائد چوری ہوئیں۔
حفاظتی تدابیر
شہریوں کی حفاظت کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین تجویز کرتے ہیں:
- دورانِ سفر اپنی لوکیشن عزیزوں کے ساتھ شیئر کریں۔
- رکشے کے نمبر اور ڈرائیور کی تفصیلات محفوظ رکھیں۔
- کوئی رکشہ بغیر نمبر پلیٹ کے ہو تو اس میں بیٹھنے سے گریز کریں۔
- اگر واردات کا سامنا ہو تو سمجھ داری دکھائیں اور مزاحمت سے گریز کریں۔