ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق بدھ کو شیراز شہر میں ایک مزار پر مسلح ’دہشت گردوں‘ کے حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
شاہ چراغ کے مزار پر ہونے والے اس حملے میں 40 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
فارس کے مطابق مرنے والوں میں ایک خاتون اور دو بچے بھی شامل ہیں۔
مقامی میڈیا نے شروع میں کہا تھا کہ تین حملہ آوروں نے حملہ کیا جن میں دو کو پکڑ لیا گیا ہے، لیکن ایک مقامی عہدے دار نے کہا کہ صرف ایک ہی حملہ آور تھا۔
مقامی عدلیہ کے سربراہ کاظم موسوی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ’حملے میں صرف ایک دہشت گرد ملوث تھا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گرد کا تعلق ایک ’تکفیری‘ تنظیم سے تھا۔
فارس کے مطابق ’گرفتار شدہ دہشت گرد ایرانی نہیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ چراغ کے مزار میں آٹھویں شیعہ امام، امام رضا کے بھائی احمد مدفون ہیں۔ اس مزار کو جنوبی ایران کا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
ایران نے جون میں ایک سنی انتہا پسند کو پھانسی دی تھی جس کے بارے میں عدلیہ نے اس وقت کہا تھا کہ اپریل کے اوائل میں دو شیعہ علما کو قتل کرنے اور دوسرے کو زخمی کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
ایک 21 سالہ ازبک نژاد شہری نے 5 اپریل کو امام رضا کے مزار پر چاقو سے حملہ کیا، جو شیعہ اسلام میں سب سے زیادہ قابل احترام شخصیات میں سے ایک ہیں۔
یہ ہلاکتیں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران ہوئیں جب ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں عبادت گزاروں کا ایک بڑا ہجوم مزار پر جمع تھا۔
بدھ کا حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب گذشتہ ماہ مہسا امینی کی موت کے بعد سے ایران سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں سے لرز اٹھا ہے۔ مہسا امینی کو ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ نے خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے سخت لباس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
بدامنی کے دوران درجنوں افراد، خاص طور پر مظاہرین بلکہ سکیورٹی فورسز کے ارکان بھی مارے جا چکے ہیں۔ خواتین سمیت مزید سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔