پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی تاجر برادری نے ایئر کراچی کے نام سے نئی فضائی کمپنی بنانے کا اعلان کیا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمپبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سابق سینیئر نائب صدر حنیف گوہر کے مطابق کراچی کی کاروباری برادری نے بہت سوچ بچار کے بعد پاکستان اور یہاں کے عوام کی سہولت کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایئر کراچی کے نام سے ایئر لائن لائیں، کیونکہ ہم تاجر 70 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ایئر کراچی کو سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے رجسٹر کر لیا ہے جبکہ ایئر لائن کے لائسنس کے لیے وفاقی حکومت کو درخواست ارسال کردی ہے۔
حنیف گوہر کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کا حال سب کے سامنے ہے، حکومت خود اس کی نجکاری چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک دو نجی فضائی کمپنیوں نے حال ہی میں اپنے آپریشنز شروع کیے لیکن اب وہ بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
’25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں بہت سارے شعبوں میں فلائٹ کی دستیابی آسان نہیں۔ اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایئر کراچی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کمپنی پہلے مرحلے میں تین طیارے لیز پر حاصل کرے گی اور کمپنی کو سی ای او سدرن کمانڈر ایئر وائس مارشل عمران چلائیں گے۔
اس کمپنی میں مشہور کاروباری شخصیات جیسے عقیل کریم ڈھیڈی، عارف حبیب اور ایس ایم تنویر کے علاوہ بشیر جان محمد، خالد تواب، زبیر طفیل اور حمزہ تابانی حصے دار ہیں۔
حنیف گوہر نے مزید بتایا کہ پانچ ارب روپے کی سرمایہ کاری سے شروع ہونے والی اس فضائی کمپنی کو چند دنوں میں لائسنس ملنے کا امکان ہے۔
ایوی ایشن پر گہری نظر رکھنے والے صحافی صلاح الدین نے نئی فضائی کمپنی کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے لوگوں مزید اچھی سفری سہولیات ملیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی تاجر برادری بے حد کم سرمائے سے کمپنی شروع کرنے جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی تاجروں کا گروپ پی آئی اے خریدنے کا بھی خواہاں تھا لیکن بعد میں پیچھے ہٹ گیا۔
’پاکستان میں اگر نئی ایئر لائنز آئیں گی تو اس کا فائدہ مسافروں کو بھی پہنچے گا۔ مارکیٹ میں مسابقت کی فضا ہوگی تو ہوائی جہاز کے کرایوں میں بھی کمی ہوگی۔‘
کسی بھی ایئر لائن کو شروع کرنے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
ماہر ہوا بازی نسیم احمد نے اس حوالے سے بتایا کہ سب سے پہلے وزارت ہوا بازی میں کمپنی کھولنے کی درخواست جمع ہوتی ہے جس پر غور اور منظوری کے بعد معاملہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس آتا ہے۔
’سول ایوی ایشن اتھارٹی قانون کے مطابق عمل کرتی ہے اور ضروری اقدامات کرنے کے بعد ہی کمپنی کو آپریشنز شروع کرنے کی اجازت ملتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ فضائی سفر کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیاں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قانون کی پابند ہیں، حکومت پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ذریعے صرف ایسی کمپنیوں کو ہی ایئر لائن بنانے کی اجازت دیتی ہے جس میں عوام کا فائدہ ہو۔
پاکستان ایوی ایشن کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈومیسٹک ایئر لائنز کے مسافر کم ہیں جبکہ بیڑہ موجود ہے، جبکہ خلیجی ایئر لائنز 60 فیصد سے زائد منافع کما رہی ہیں اور اس طرح ان کی ملکی معیشت پروان چڑھ رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی ایئر لائن کو شروع کرنا آسان نہیں۔ ’ماضی میں بھی بہت سی ایئر لائنز شروع کرنے کے اعلان ہوا لیکن ایسا نہیں ہو سکا، اس کی بنیادی وجہ ادارے کی پالیسی ہے۔
’پالیسیز کو مکمل کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہے جس کے باعث ایئر لائنز وجود میں لانے کے اعلان صرف اعلان کی حد تک رہ جاتے ہیں۔‘