لوئر دیر: خواتین کی بنائی ہوئی سفید ٹوپی کی معدوم ہوتی روایت

مفتاح الدین نے کہا کہ سفید ٹوپی دیرلوئرکی ثقافت ہے اوریہاں یہ روایت کافی پرانی ہے کہ مقامی لوگ خال کی ٹوپی مہمانوں کو بطور تحفہ بھی پیش کرتے ہے۔

خیبر £ختونخوا کے ضلع لوئردیر کی تحصیل خال کی مشہور سفید ٹوپی خواتین گھروں میں خصوصی طور پر تیارکرتی ہیں مگر اب یہ روایت معدوم ہوتی جارہی ہے۔

خال بازار میں سفید ٹوپیوں کے کاروبارسے وابستہ مفتاح الدین مجروح نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’خال کی سفید ٹوپی کی روایت 100 سال سے پہلے سے چلی آرہی  ہے اور نواب دیر کے دور سے پہلے سے یہاں سفید ٹوپی بن رہی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’خال میں یہ ٹوپیاں خواتین گھروں میں بناتی ہیں اورجب ہم چھوٹے تھے توعید کے موقع پرہماری مائیں ہمارے لیے سپیشل ٹوپیاں بناتی تھیں۔‘

مفتاح الدین نے کہا کہ سفید ٹوپی دیرلوئرکی ثقافت ہے اوریہاں یہ روایت کافی پرانی ہے کہ مقامی لوگ خال کی ٹوپی مہمانوں کو بطور تحفہ بھی پیش کرتے ہے۔

انہوں نے کہا: ’پہلے غربت زیادہ تھی جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ہماری مائیں ہماری مدد کرتی تھیں یہی ٹوپیاں بنا کر اس سے ہماری تعلیم کا خرچہ پورا کرتی تھیں۔ پہلے خواتین کی ضروریات سفید ٹوپی تیارکرنے سے پوری ہوتی تھی لیکن اب اس میں وہ فائدہ نہیں ہےاورزیادہ تر خواتین نے ٹوپی بنانا چھوڑ دیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ خال کی ٹوپی مشین سے بھی بنتی ہےاور اس میں ہاتھوں کی بنی ہوئی بھی ہوتی ہے لیکن جو ہاتھوں سے بنی ہوئی ہوتی ہے وہ اب معدوم ہوتی جارہی ہیں کیوں کہ اس میں وقت زیادہ لگتا ہے اور مشین والی آسانی سے بن جاتی ہے۔

خال کی ٹوپی کے کاروبار کرنے والے مفتاح نے بتایا کہ ٹوپی کا سامان اب کافی مہنگا ہوگیا ہے اس کے علاوہ حکومت نے بھی اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے یہ روایت دم توڑ رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب اس میں خواتین کو فائدہ نہیں ہے کیوں کہ اس کا سامان کافی مہنگا ہوگیا ہے اس میں ٹائم بھی زیادہ لگتا ہے بس اب خواتین اس کو مصروفیت کے لیے بناتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’اس ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے سب سے پہلے صوبائی حکومت نے قدم بڑھانا ہوگا اوریہاں کی خواتین کے لیے جو ایڈوانس مشینیں ہیں وہ مہیا کرنا چاہیے اس کے میٹئریئل کو سستا کرنا چائیے تاکہ ان کو وہ آسانی سے مل سکے۔‘

دیرخال کی ٹوپی میں ایک سفید رنگ کی جبکہ ایک نیلے رنگ کی بھی ہوتی تھی جو اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔

 مفتاح الدین نے کہا کہ خال کی ٹوپیاں زیادہ تر یہاں سے پشاور، مردان، چارسدہ، صوابی اور کچھ سال پہلے جلال آباد افغانستان سے  بھی ادھر تاجرلوگ ٹوپیوں کے لیے آتے تھے لیکن اب بارڈر کا مسئلہ ہے تو افغانستان سے تاجر نہیں آرہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دیرخال کی ٹوپی کی کافی ڈیمانڈ ہے جو پشاروسے جاتی ہے۔

اس میں مختلف قیمت کی ٹوپیاں ہیں ہزار یا 1500 یا پھر اس سے اوپر بھی جو ہاتھ کی بنی ہوئی ہوتی ہیں اور اس کی قیمت 4000 یا 5000 تک ہوتی ہے۔

مفتاح الدین کے مطابق جماعتِ اسلامی کے مرکزی امیرسراج لحق بھی دیر خال کی ٹوپی پہنتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین