بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی ثمرین گذشتہ 12 سالوں سے اسلام آباد میں خواتین کو سائیکل چلانا سکھا رہی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ سب ان کے لیے آسان نہیں تھا اور اپنا سائیکل چلانے اور سکھانے کا شوق پورا کرتے ہوئے انہیں اکثر ’مردوں کی جانب سے ہراسانی‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ثمرین خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی سائیکل چلانے کا شوق تھا لیکن خاندان والوں کی جانب سے ’پابندیوں‘ کی وجہ سے وہ سائیکل نہیں چلا سکتی تھیں۔
’میں نے بلوچستان میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد کا رخ کیا اور سائیکل چلانے اور سکھانے کا آغاز کیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے 2019 میں خواتین کو سائیکلنگ سکھانے کا آغاز ’گرلز سائیکلنگ سکواڈ‘ کے نام سے کیا اور وہ اپنے گھر کے سامنے ایک گراؤنڈ میں خواتین کو سائیکل چلانا سکھا رہی ہیں۔
ثمرین خان کے مطابق ’جی سی ایس، پاکستان میں پہلا پلیٹ فارم ہے جہاں پر ایک خاتون کی لیڈرشپ کے نیچے صرف خواتین ہی سائیکل چلانا سیکھ رہی ہیں اور ایک گروپ رائیڈ کا موقع انہیں ملتا ہے جس میں خواتین اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔‘
ثمرین سے سائیکل سیکھنے والی ایک نوجوان خاتون سارہ بتاتی ہیں کہ ’میرا شوق ہے کہ میں سائیکل پر پورا پاکستان دیکھ لوں لیکن پاکستان میں میرے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ مجھے اکیلے سائیکل پر سفر کرتے ہوئے کئی دفعہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب سے مجھے جی سی ایس کے بارے میں پتہ چلا ہے تب سے آج تک میں ان کے ساتھ ایک گروپ میں سفر کرتی ہوں جہاں میں باقی لڑکیوں کے ساتھ اپنے آپ کو کو محفوظ تصور کرتی ہوں۔‘
ثمرین خان نے مزید بتایا کہ ’میرے پاس کچھ لڑکیاں اس لیے آتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے آفس جانا ہوتا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ وہ آفس جانے کے لیے سائیکل کا سہارا لیں کیونکہ آج کل مہنگائی بہت زیادہ ہے۔‘
ان کا کہا ہے کہ انہوں نے خواتین کو ٹریننگ دینے کے لیے خود سے پیسے جوڑ کر چار سائیکلز خریدیں، جس میں خرابی کی صورت میں وہ خواتین سے کچھ رقم فیس کے طور پر لیتی ہیں۔
بقول ثمرین انہوں نے گلگت سے خنجراب تک سائیکل پر پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر 280 کلومیٹر کا طویل سفر طے کر کے پاکستان میں واحد لڑکی ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے جبکہ ثمرین خیبر پختونخوا کی خواتین ٹیم کی نمائندگی کرنے کے ساتھ سپورٹس میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی واحد پاکستانی خاتون بھی ہیں۔