قلعوں اور شاہی محلوں میں رہنے والی بیگمات کے درمیان مخصوص محاوروں اور لہجوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ’بیگماتی زبان‘ کا خطاب ملا، مگر دہلی میں سیاسی انتشار کے بعد یہ زبان قلعہ سے نکل کر پرانی دہلی کی گلیوں پھیل گئی اور اچھے گھروں کی بیگمات مخصوص محاوروں کے ساتھ بول چال کرنے لگیں۔
اردو کی پرانی کہانیوں میں بیگماتی زبان کے بہت سارے نمونے مل جاتے ہیں۔ بیگماتی زبان کے محققین مانتے ہیں کہ بیگماتی زبان، کرخنداری زبان سے زیادہ مضبوط اور ادبی چاشنی رکھتی ہے۔ اس کا اثر آج بھی دہلی کے قدیم خاندانوں میں ملتا ہے۔
بیگماتی زبان کے حوالے سے تعارفی بیک گراونڈ فراہم کرتے ہوئے ثانیہ بتاتی ہیں کہ بیگماتی زبان دراصل اردو زبان ہی ہے، جسے مخصوص انداز میں دوران گفتگو استعمال کیا جاتا ہے۔
ثانیہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے بیگماتی زبان پر پی ایچ ڈی کررہی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ’بیگماتی زبان کا چلن اب نہیں رہا ہے۔
’ڈپٹی نظیر اور حالی جیسے مصلحین نے اس زبان کو بد زبانی کہہ کر ختم کروا دیا یا جب سے لڑکیوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی تب سے سکولوں میں جو زبانیں بولی جاتی ہیں، اس میں بیگماتی زبان کہیں چھپ گئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود بیگماتی زبان کے اثرات ہماری گفتگو میں آج بھی مل جائے گے۔ کچن اور خواتین سے جڑے جو محاورے ہیں، وہ بیگماتی زبان کے ہی دین ہیں۔‘
ثانیہ مزید بتاتی ہیں کہ بیگماتی زبان کا ورثے کو بہت قاعدے سے محفوظ نہیں کیا گیا، کیوں کہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم جو بھی محفوظ ہے اسے بھی مردوں نے ہی محفوظ کیا ہے۔ خاص طور پر اس زبان کے اثاثے جو بھی ملتے ہیں، ان لکھنے والوں کی دین ہیں جن کی پرورش زنانہ میں ہوئی، جہاں گھر کی ساری عورتیں رہتی تھیں۔
’جب میں کہتی ہوں کہ گھر کی ساری عورتیں تو ظاہر سی بات ہے دادی، نانی، پھوپھی، بہن، بیٹی۔ ان کے علاوہ جو گھر کی خادمائیں تھیں، جو پورا گھر چلاتی تھیں، اس میں آپ کی باندیاں، جو باہر سے سامان لے کر آتی تھیں، آپ کی انا جو بچوں کی پرورش کرتی تھیں، آپ کی ماماں جو گھر کی باقی چیزوں کا دھیان رکھتی تھیں، وہ سب زنانہ کا حصہ ہوتی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن وہ جو زبان بولتی تھیں اس کا ایک الگ ذائقہ ہوتا تھا۔ اُس کا جو الفاظ کا ذخیرہ ہوتا تھا وہ مردوں کی زبان سے الگ ہوتا تھا۔‘
ثانیہ بتاتی ہیں کہ جس طرح سے مردوں کی کوئی بھی گفتگو بغیر کسی شعر کے مکمل نہیں ہوتی تھی ویسے ہی عورتوں کی باتیں بغیر کسی کہاوت یا محاورے کے مکمل نہیں ہوتی تھیں۔ اس میں آپ کو طعنہ بھی ملے گا اس کے ساتھ آپ کو تشنہ بھی ملے گا۔
’جو عورتیں باسلیقہ نہیں ہوتی تھیں اُن کو ’نکھٹو‘ بولا جاتا تھا۔ اب ’نکھٹو‘ کا لفظ مرد استعمال نہیں کرتے۔ اسی طرح سے اگر کوئی کہاوت ہے، تو جیسے کہ اگر کوئی زیادہ بول رہا ہے، اگر کوئی مرد اُسے ٹوکے گا، وہ بولے گا زبان کو ’لگام‘ دو۔ لگام گھوڑ سواری میں استعمال ہوتی ہے۔ لیکن کیونکہ عورتیں گھوڑ سواری نہیں کرتیں، وہ کیا بولیں گی؟ اگر کوئی عورت یا لڑکی زنانے میں زیادہ بولے گی تو اُس سے پوچھیں گی ’زبان کا ٹانکا ٹوٹ گیا ہے؟‘ ٹانکا، لفظ ہمارے پاس سلائی کڑھائی سے آیا ہے۔‘
ثانیہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’تو جو زنانے کی ساری ایکٹویٹیز ہوتی تھیں جو ان میں کام ہوتے تھے انہی سے یہ زنانہ بنتی ہے۔ آپ دیکھیں گے ہمارے پاس جتنی بھی کہاوتیں ہیں یا محاورے ہیں جو باورچی خانے سے آتے ہیں وہ بیگماتی زبان کی دین ہیں۔ جو کچھ ایسی باتیں ہیں جو زچّہ اور بچہ کیئر کے لیے آتی ہیں وہ بیگماتی زبان کی باتیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔ ہم بولتے ہیں شرارت اس کی ’گھٹی‘ میں پڑی ہے، یعنی اس کی شخصیت کا حصہ ہے۔گھٹی میں پڑی ہے زنانہ سے آئی ہے۔ یہ بیگماتی زبان کی ایک مثال ہے۔ یا کوئی اگر کسی جگہ بار بار جاتا ہے تو اُس کو بولتے ہیں ’تم اتنا کیوں جاتے ہو؟ کیا تمہاری آنول نال وہاں آ کر گڑی ہوئی ہے؟‘ آنول نال یعنی ناف۔
انہوں نے مزید مثالیں دیتے ہوئے کہا ’دائی سے پیٹ چھپانے سے مراد ہے ہم سے کوئی ایسی بات نہیں چھپائی جا سکتی کیونکہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں کبھی مرد نہیں بولتے تھے۔ خاص طور پر بیگماتی زبان لکھ کر شروع نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ یہ زبان بول چال کی زبان تھی۔‘
ثانیہ بتاتی ہیں کہ لفظ ’بیگم‘ میں’کلاس‘ اور کہیں کہیں ’کاسٹ یا ذات پات‘ کا فیکٹر بھی موجود ہوتا ہے۔ بیگماتی زبان کی دکنی میں بھی مثالیں ملیں گی، لکھنؤ میں بہت بولی جاتی ہے اور بھوپال میں بھی۔ جہاں پردہ نشین عورتوں کا زنانہ الگ ہوتا تھا وہاں آپ کو اس زبان کی بہت ساری مثالیں ملیں گی۔‘
زبان کے مٹ جانے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعد میں جب ریفارمرز آئین تو کہا گیا کہ یہ خاص طرح کی عورتوں کی زبان ہے اور ہمیں ایسا نہیں بولنا چاہیے۔ وہاں پر زبان ’standardize‘ ہوتی گئی۔
19 ویں صدی کے اوائل میں سوشل چینجز آئیں، سیاسی زندگی بھی بدلی تو معاشرے میں لوگوں کے پاس پیسہ آیا۔ لیکن لوگوں کے پاس ذوق کی کمی تھی۔ تو اُن کو بولتے تھے۔ ایسے لوگوں کی خواتین کو نشانہ بنا کر بولا جاتا تھا ’بھول گئی چونی بھول گئی ٹاٹ، کھانے لگی گیہوں سونے لگی کھاٹ۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بیگماتی زبان ردیف کے مطابق ہوتی تھی۔ اس کا انداز بیان الگ ہوتا تھا۔ جیسے حیدرآباد کی عورتوں کے گانے میں ایک ترنم ہوتا ہے۔ وہ جو بولیں گی اس میں ایک رائم بھی ملے گی۔ جیسے خود کو جب برا سمجھتی تھیں یا خود کو کچھ کہتی تھیں تو بولتی تھیں ’لکڑی جل کوئلہ بھئی، کوئلہ جل بھئی راکھ، میں پاپن ایسے جلی کوئلہ بھئی نہ راکھ۔‘
تو ِس میں خود پر طنز بھی ہے۔ خود کو بتا رہی ہیں کہ میری تو کیا ہی قسمت ہیں۔ میں کیا ہی کر سکتی ہوں۔‘