شمال مغربی پاکستان میں ایک پولیس چوکی پر ریت کے تھیلوں کے پیچھے کھڑے فیضان اللہ خان ایک اینٹی ایئرکرافٹ گن کی شست سے دیکھتے ہوئے ملک کے سابق قبائلی علاقوں کے سرحدی علاقے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
فروری کی اس سرد اور برساتی صبح میں وہ ہوائی جہاز کی کھوج میں نہیں بلکہ اپنی فورس صوبائی پولیس خیبر پختونخوا کے خلاف حملوں میں ملوث شدت پسندوں کی تلاش میں تھے۔
روایتی چارپائی پر بیٹھے ہوئے اسسٹنٹ سب انسپکٹر فیضان اللہ خان نے کہا کہ چونکہ یہ دن کا وقت ہے تو ہ وہ تھوڑا آرام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کئی برس قبل عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے ایک ساتھی کے نام پر بنی ’چوکی منظور شہید‘ پر گولیوں کے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رات کی بات الگ ہے۔
یہ چوکی ان درجنوں چوکیوں میں سے ایک ہے جو طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان سے متصل سرحدی علاقے میں خفیہ ٹھکانوں سے پاکستانی پولیس پر حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف دفاع فراہم کرتی ہے۔
یہ علاقہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کا گڑھ ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے لیے شورش کے خطرے کی عکاسی گذشتہ ماہ اس وقت ہوئی جب پشاور میں ایک مسجد پر ہونے والے بم دھماکے میں 80 سے زیادہ پولیس اہلکار جان سے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی۔
رواں ماہ شمال مغربی پاکستان کا دورہ کرنے والی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے پولیس چوکیوں تک رسائی حاصل کی اور ایک درجن سے زائد افراد سے بات کی جن میں سینئیر پولیس حکام بھی شامل تھے۔
ان میں سے متعدد نے بتایا کہ کس طرح فورس کو ری سورسنگ اور لاجسٹک کی درپیش رکاوٹوں سے نقصانات اور شدت پسندوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستانی حکام ان چیلنجوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ نامساعد معاشی حالات کے باوجود فورس کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’ان کا راستہ روک دیا گیا‘
یہاں کی پولیس برسوں سے شدت پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہے اور 2001 سے اب تک 2100 سے زائد اہلکار جان سے جا چکے ہیں اور سات ہزار زخمی ہو چکے ہیں لیکن وہ کبھی بھی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کا اتنا نشانہ نہیں رہے، جتنا آج ہیں۔
منظور شہید چوکی کو کنٹرول کرنے والے سربند سٹیشن کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر جمیل شاہ نے عسکریت پسندوں کے بارے میں کہا، ’ہم نے پشاور جانے کے لیے ان کا راستہ روک دیا ہے۔‘
پولیس کے مطابق سربند اور اس کی آٹھ چوکیوں کو حالیہ مہینوں میں چار بڑے حملوں کا اور غیر معمولی تعداد میں سنائپر فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
خیبر پختونخوا میں پولیس اہلکاروں کی اموات کی تعداد گذشتہ سال بڑھ کر 119 ہو گئی جو 2021 میں 54 اور 2020 میں 21 تھی۔
اس سال پہلے ہی 102 اہلکار جان گنوا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر اموات مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں ہوئی۔
17 فروری کو عسکریت پسندوں نے کراچی میں ایک پولیس آفس پر دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں چار افراد جان سے گئے۔
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ان کا ’بنیادی ہدف پاکستانی فوج ہے لیکن پولیس راستے میں رکاوٹ ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’پولیس کو کئی بار کہا گیا ہے کہ وہ ہمارا راستہ نہ روکیں، اور اس پر توجہ دینے کی بجائے پولیس نے ہمارے ساتھیوں کو شہید کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔‘
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فوج نے خیبر پختونخوا پولیس کے ساتھ مل کر آپریشن کیے ہیں اور ٹی ٹی پی کے حملوں کا سامنا کیا ہے، اس سال صوبے میں ایک فوجی کی موت کی تصدیق ہوئی ہے۔ آئی ایس پی آر نے فوجی نقصان کے متعلق روئٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
دسمبر 2022 میں ٹی ٹی پی نے ایک ویڈیو جاری کی جو مبینہ طور پر اس کے ایک جنگجو نے دارالحکومت اسلام آباد کے آس پاس کے پہاڑوں میں ریکارڈ کی تھی، جس میں پاکستان کی پارلیمنٹ کی عمارت کو دکھایا گیا تھا۔ نامعلوم جنگجو کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ایک نوٹ میں کہا گیا تھا ’ہم آ رہے ہیں۔‘
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فارپیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے کہا: ’ٹی ٹی پی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ اس کے جنگجو اپنے موجودہ اثر و رسوخ والے علاقوں سے باہر حملہ کر سکتے ہیں۔ تاہم ہوسکتا ہے ان کی صلاحیت محدود ہو۔‘
انہوں نے کہا: ’پروپیگینڈا اس جنگ کا ایک بڑا حصہ ہے اور ٹی ٹی پی اس میں بہتر ہوتی جا رہی ہے۔‘
’آسان اہداف‘
صوبہ خیبر پختونخوا دارالحکومت اسلام آباد کے پڑوس میں واقع ہے اور اس کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں، لیکن وہ وسائل کی کمی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
سربند پولیس سٹیشن کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر جمیل شاہ نے کہا: ’سب سے بڑا مسئلہ اہلکاروں کی تعداد ہے، جو قدرے کم ہے۔ یہ علاقہ ایک ہدف ہے، اور ہم (عسکریت پسندوں) کے مد مقابل ہیں۔‘
اس پولیس سٹیشن اور اس کی آٹھ ملحقہ چوکیوں کے لیے ڈرائیوروں اور کلرکوں سمیت مجموعی طور پر 55 افراد ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے سربند کے دورے سے چند روز قبل پولیس سٹیشن کے باہر عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایک سینئیر پولیس اہلکار پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ جان سے گئے۔
جمیل شاہ کے مطابق، اس حملے نے باغیوں کی فائر پاور کو ظاہر کیا، جنہوں نے اندھیرے میں افسر کو نشانہ بنانے کے لئے تھرمل چشموں کا استعمال کیا۔
یہ پہلی بار نہیں تھا کیونکہ تقریبا ایک سال قبل ٹی ٹی پی نے اپنے سنائپرز کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں وہ تھرمل امیجنگ کا استعمال کرتے ہوئے غیرمشتبہ سکیورٹی اہلکاروں کو باہر نکالتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف، جنہوں نے شورش کے بارے میں رؤئٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، نے اس ماہ مقامی ٹی وی کو بتایا کہ عسکریت پسند پولیس کو ’آسان ہدف‘ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے عوامی کردار کی وجہ سے ان کی تنصیبات میں داخل ہونا آسان ہو جاتا ہے۔
ایک صحافی اور عسکریت پسندی پر کتابوں کے مصنف زاہد حسین کہتے ہیں کہ پولیس اپنے وسائل اور تربیت کی وجہ سے فوج کے مقابلے میں زیادہ خطرے میں ہے۔
حسین نے کہا، ’میرا مطلب، یہاں وہ آسان اہداف ہیں۔‘
’مہلک ہتھیار‘
معظم جاہ انصاری، جو اس ماہ رؤئٹرز سے بات کرتے وقت خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ تھے، نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی حکمت عملی تبدیلی ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا: ’وہ عسکری کارروائیاں کرنے کے لیے زیادہ مؤثر طریقے، زیادہ مہلک ہتھیاروں کی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے 2021 میں افغانستان سے نکلنے والی مغربی افواج کے چھوڑے گئے ذخیرے سے امریکی ساختہ ایم فور رائفلیں اور دیگر جدید ہتھیار حاصل کیے ہیں۔
کچھ پولیس گارڈز نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اپنی چوکیوں کے اوپر چھوٹے جاسوس ڈرونز کو اڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان خراسانی نے تصدیق کی ہے کہ وہ گروپ نگرانی کے لیے ڈرون استعمال کر رہا تھا۔
سربند سٹیشن کے متعدد پولیس عہدیداروں نے بتایا کہ صوبائی حکومت اور فوج نے جنوری کے آخر میں لڑائی میں مدد کے لیے انہیں اور دیگر چوکیوں کو تھرمل چشمے فراہم کیے تھے۔ لیکن انہیں ایک اور مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمیل شاہ نے روئٹرز کو بتایا، ’دن کے تقریبا 22 گھنٹے ہمارے پاس بجلی کی بندش ہوتی ہے۔ ہمارے چشموں کو چارج کرنے کے لیے بجلی نہیں ہے۔‘
سٹیشن کے سربراہ قیوم خان کے مطابق سٹیشن کی چھت پر ایک سولر پینل ہے، جسے نصب کرنے کے لیے افسران نے اپنی جیب سے پیسے دیے۔
ایک پولیس اہلکار نے محکمانہ کارروائی کے ڈر سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس اپنی گاڑیوں کا استعمال کرتی ہے یا بیک اپ جنریٹر سے لیس پیٹرول پمپ پر جا کر اپنے چشمے چارج کرتی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے دیگر حفاظتی اقدامات کیے ہیں، جن میں سنائپر فائر سے بچنے کے لیے دیواریں کھڑی کرنا اور ایک ایسے بازار سے بلٹ پروف شیشے خریدنا شامل ہے جو امریکی قیادت والی افواج کی جانب سے چھوڑے گئے سازوسامان فروخت کرتا ہے۔
معاشی حالات
روئٹرز نے چار دیگر سینئیر عہدیداروں اور ایک درجن سے زائد نچلے درجے کے افسران سے بات کی، جن میں سے سب ہی کا کہنا تھا کہ صوبائی فورس کو اس کے کلیدی کردار کے باوجود نظر انداز کیا گیا۔ انہوں نے تادیبی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
ان عہدیداروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ مطلوبہ وسائل نہیں مل رہے تھے اور ان کی تنخواہیں اور مراعات پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بھی کم تر تھیں، فوج تو دور کی بات ہے۔
انتخابات سے قبل نگران انتظامیہ سے بھی پہلے، جنوری میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے کہا تھا، کیا پولیس کو مزید وسائل کی ضرورت ہے؟ انہیں بالکل ضرورت ہے۔‘
تیمور جھگڑا نے کہا کہ ان کی حکومت نے مالی مشکلات کے باوجود تنخواہوں میں اضافے اور چشمے جیسے آلات کی خریداری میں پولیس کی ہر ممکن مدد کی۔
پاکستان کی قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت ایک سال سے زیادہ عرصے سے تنزلی کا شکار ہے اور ملک ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اخراجات میں کمی لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا اس کی زیادہ قیمت ادا کرتا ہے‘ کیونکہ یہ شدت پسندوں کے سامنے ہے۔‘
سابق پولیس چیف انصاری نے کہا کہ وسائل میں بہتری آئی ہے، لیکن جب کوئی خطرہ ابھرتا ہے تو وہ مستقل حمایت کے بجائے رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
انہوں نے بھی اس کی وجہ معاشی حالات کو قرار دیا، لیکن یہ بھی کہا کہ حالات اتنے خراب نہیں ہیں جتنے کچھ لوگوں نے بتائے تھے۔
'غصہ نظر آتا ہے‘
اگست 2021 میں مغربی افواج کے افغانستان چھوڑنے کے بعد، پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں کئی ماہ تک مذاکرات ہوئے۔
ٹی ٹی پی نے نومبر 2022 میں جنگ بندی ختم کر دی اور اس کے فورا بعد عسکریت پسندوں نے پاکستان میں دوبارہ حملے شروع کر دیے۔
پشاور بم دھماکے کے بعد، پولیس اہلکاروں نے عوامی مظاہرے کیے جہاں کچھ نے اپنی قیادت، صوبائی اور قومی حکومتوں اور عسکریت پسندوں سے لڑنے کی پالیسی پر مزید وسائل اور وضاحت کا مطالبہ کیا۔
انصاری نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس حملے کے بعد فورس میں ’نقصان کا گہرا احساس‘ اور ’شدید غصہ‘ پایا جاتا ہے۔
دھماکے کے مقام پر پولیس اہلکار اپنے شہید ساتھیوں کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ حملے میں اپنے بھائی کو کھونے والے پولیس ملازم امام نے فورس کی کامیابی کے لیے دعا کی۔
مسجد کے پیچھے ایک سسٹنٹ سب انسپکٹر دولت خان اور آٹھ رشتہ دار تنگ پولیس کوارٹر میں رہتے ہیں جو 25 مربع میٹر کی جگہ پر مشتمل ہے جس میں صرف ایک کمرہ ہے۔ اس کے ارد گرد ٹوٹی پھوٹی، دھماکے سے تباہ شدہ دیواریں ہیں۔
انہوں نے صدیوں پرانے برطانوی نوآبادیاتی دور کے کوارٹرز کی قطاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’ہر کوئی پولیس کی قربانیاں دیکھ سکتا ہے، لیکن ہمارے لیے کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ آپ اپنے سامنے حالات دیکھ رہے ہیں۔‘ باہر، گلیوں میں سیوریج کی کھلی نہریں بہہ رہی تھیں۔
مختلف جھڑپیں
پاکستان کی فوج نے مؤثر طریقے سے ٹی ٹی پی کو ختم کیا اور 2014 کے بعد سے متعدد کارروائیوں میں اس کی زیادہ تر اعلیٰ قیادت کو ہلاک کر دیا، جس سے زیادہ تر جنگجو افغانستان بھاگ گئے، جہاں وہ دوبارہ جمع ہوئے۔
لیکن حالیہ مہینوں میں لڑائی کی نوعیت بدل گئی ہے، جس سے جزوی طور پر ظاہر ہوتا ہے پولیس سب سے آگے ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں قائم ٹھکانوں سے کام کرنے کی بجائے عسکریت پسند اب ملک بھر میں چھوٹے گروہوں اور شہری آبادی میں پھیل چکے ہیں۔
فوج کی توجہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ایک اور شورش کی وجہ سے بٹ چکی ہے، جہاں علیحدگی پسند ریاستی بنیادی ڈھانچے اور چینی سرمایہ کاری کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
وزارت دفاع نے خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کے خلاف مزاحمت میں مسلح افواج کے کردار کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
دریں اثنا، فلیش پوائنٹس سے میلوں دور، نوشہرہ کے وسیع ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر میں پولیس گریجویٹس کو عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے متعلق چھ ماہ کے کورسز کروائے جاتے ہیں۔
خواتین سمیت اہلکار چھاپے مارنا، عمارتوں سے اترنا اور راکٹ سے چلنے والے دستی بم اور اینٹی ایئرکرافٹ گنوں کا استعمال کرنا سیکھتے ہیں، جنہیں وہ عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ کے ماڈل پر استعمال کرتے ہیں۔
لیکن ٹریننگ سکول کی دیواروں سے باہر، کوئی مستحکم عسکریت پسند کیمپ نہیں ہے، حملے رات کے وقت ہوتے ہیں، اور پولیس کا انحصار اکثر اپنی مدد آپ پر ہوتا ہے۔
فیضان اللہ خان نے بتایا کہ ان کی چوکی پر بعض راتوں کو عسکریت پسند انہیں یا ان کے ساتھی محافظوں کو پکارتے ہیں۔ ’وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اپنے ہتھیار ڈال دو۔‘
انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی محافظ اندھیرے میں اپنی بندوقیں چلا کر جواب دیتے ہیں۔