صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں 30 جنوری کو پولیس لائنز میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں جان سے جانے والے پولیس اہلکاروں میں ایک چالیس سالہ انسپیکٹر عرفان خان بھی تھے، جو اس دن ایک میٹنگ کے سلسلے میں پولیس لائنز گئے تھے۔
انسپیکٹر عرفان خان پشاور کے تھانہ سربند میں بطور انسپکٹر تعینات تھے، اور ان کا تعلق پشاور کے علاقے کوٹلہ محسن خان سے تھا۔
انہیں 30 جنوری کو اعلیٰ افسران نے کسی میٹنگ کے لیے مدعو کیا تھا، جہاں وہ نماز کے وقفے میں پولیس لائنز کے اندر واقع مسجد میں نماز پڑھنے گئے تھے۔
دھماکے میں انسپیکٹر عرفان خان کو سر پر اس قدر شدید چوٹیں آئیں کہ وہ بچ نہ سکے۔
انسپیکٹر عرفان خان کو آخری لمحوں میں بچانے کی کوششیں کرنے والے ڈاکٹر طاہر خان نے بعد ازاں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’ہم کسی معجزے کی امید کر رہے تھے۔ میں ان کے آخری لمحات نہیں بھول سکتا، جس طرح وہ زندگی کے لیے چیخ رہا تھا۔‘
’ان کی 30 منٹ سی پی آر کی گئی، ایمرجنسی ادویات دی گئیں۔ میری ٹیم نے بہت محنت کی ان کو بچانے کی ہر ممکن مدد کی گئی۔ لیکن ان کو دماغ پر چوٹ لگی تھی۔ میں اس شخص کے مرنے پر بہت رویا۔ باقی سب بھی رو رہے تھے۔‘
For this shaheed almost I did my best we were hoping for miracle..I can’t forget the last moment of his life when he was shouting for life ..Did almost 30 mints CPR and emergency medications my team worked hard to save his life but he was a brain injury I cried for this man pic.twitter.com/mdL877F2cZ
— Dr Tahir khan (@DrTahirkhan18) January 30, 2023
انسپیکٹر عرفان خان کی بہنوں نے بتایا کہ ڈاکٹر طاہر بھی ان کے بھائی کی فاتحہ خوانی پر آئے تھے اور کئی ایسے لوگ بھی جن کی پہلے کبھی عرفان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کی بہن نے بتایا کہ ’جس دن بھائی پولیس لائنز جا رہے تھے تو والدہ نے پوچھا کہ وہاں کیوں جا رہے ہیں؟ بھائی نے کالر کو ہاتھ لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا کہ قابل ہوں نا، اس لیے افسران نے بلایا ہے۔‘
انسپیکٹر عرفان خان کی بہن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وہ ایک بہت بہادر انسان تھے اور انہوں نے اپنی بیوی کی تربیت بھی ایسے ہی کی تھی۔‘
اس بات چیت کے دوران انسپیکٹر عرفان خان کی بیوہ بھی کمرے میں داخل ہوئیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو خشک ہوتے محسوس ہوئے۔ جیسے ایک قیامت گزرنے کے بعد مالی اور جانی نقصان کے باوجود عجیب سی خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔
انسپیکٹر عرفان خان کی بیوہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جس دن وہ پولیس لائنز جا رہے تھے تو انہوں نے صاف ستھرا لباس مانگا۔ مجھے کہا کہ آج مجھے صاف ستھرے کپڑے دو۔ میں ہمیشہ ان کے کپڑے استری شدہ رکھتی تھی۔ اس دن بھی حسب معمول چائے پی، اور ہمیشہ کی طرح نے انہیں ان کا تمام سامان گاڑی تک پہنچا کر دیا۔ میں ہمیشہ ان کو ہنسی خوشی اور دعاؤں سے رخصت کرتی تھی۔‘
’جس دن یہ واقعہ ہوا تو ہم نے پہلے ٹی وی پر خبر سنی۔ میں نے فون کیا تو کسی اور نے کال اٹینڈ کی اور کہا کہ انسپیکٹر عرفان خان زخمی ہیں، آپ آ جائیں۔ یہ سنتے ہی میں نےموبائل پھینک دیا اور چیخنے لگی۔‘
عرفان کی بیوہ نے بتایا کہ اگرچہ ان کی ارینج شادی تھی لیکن دونوں میں بہت پیار تھا اور ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔
’نہ انہوں نے مجھے کبھی کسی چیز پر تنگ کیا اور نہ میں نے انہیں کوئی تکلیف دی۔ بہت اچھی زندگی گزر رہی تھی۔ میرا شوہر بہت پیار کرنے والا شخص تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسپیکٹر عرفان خان کے گھروالوں نے بتایا کہ وہ اکثر گھر میں ذکر کرتے تھے کہ پولیس کو خطرہ ہے، اور اس سے قبل بھی وہ تھانہ سربند پر ایک حملے میں بچ گئے تھے۔
انسپیکٹر عرفان خان کے پانچ بچے ہیں، جن میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے تاہم عرفان کی بیوہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کے شادی شدہ بھائی جو ان کے گھر کے ساتھ ملحقہ گھروں میں رہتے ہیں، نے ان کا اور ان کے یتیم بچوں کی کفالت کا خرچہ اٹھانے کا کہا ہے۔
پولیس لائنز دھماکہ پیر کے دن 30 جنوری کو اس وقت ہوا تھا جب کئی پولیس اہلکار اور عمارت میں دیگر ملازمتوں پر مامور افراد نماز پڑھ رہے تھے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق، کُل 84 افراد جان سے گئے، جب کہ پانچ ان میں نامعلوم افراد بھی شامل ہیں۔
ایس ایس پی کوآرڈینیشن ظہور آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ اعدادوشمار صحیح ہیں اور پولیس لائنز نے پوری توجہ سے مرتب کیے ہیں کیونکہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میڈیا کو حقیقی اعدادوشمار نہیں دے رہا تھا۔‘