آزاد سکاٹ لینڈ کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا

ایس این پی یک منشوری پارٹی ہے۔ یہ اس طرح ہی شروع ہوئی اور پروان چڑھی۔ ان کی قسمت سکاٹ لینڈ کی آزادی کے اسباب کی عکاسی کرتی ہے۔ کیا ان کا پروان چڑھنا پارٹی یا اس کے اثر کی وجہ سے تھا؟

28 مارچ 2021 کو لی گئی اس تصویر میں سکاٹ لینڈ کی سابق وزیر اور سکاٹش نیشنل پارٹی کی رہنما، نکولا سٹرجن اور ان کے شوہر پیٹر مریل اپنی تقریر کی ریہرسل میں شرکت کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ایک پگھلاؤ، ایک پھسلن، ایک ٹرین کی تباہی ۔۔۔ یہ سب پچھلے آٹھ ہفتوں کے دوران سکاٹ لینڈ کی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کو بیان کرتے ہیں۔

سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) کے لیے پہلی سی عظمت کے ساتھ واپسی کا تصور کرنا مشکل ہے۔

سکاٹش نیشنل پارٹی کے نئے سربراہ حمزہ یوسف کے لیے ہمدردی کے علاوہ کچھ محسوس کرنا بھی مشکل ہے کہ جنہیں غیر مہذب طور پر ایک بکھری ہوئی وراثت کے ساتھ اقتدار سونپا گیا ہے۔

سابق ایس این پی رہنما نکولا سٹرجن اور ان کے شوہر (پارٹی کے سابق چیف ایگزیکٹو) پیٹر موریل کے مشترکہ گھر پر پولیس کی جانب سے صبح کے وقت مارا گیا چھاپہ اس تازہ بدترین صورت حال کی نشاندہی کرتا ہے۔

ایک ہمسائے نے ان کے لان میں نصب نیلے رنگ کا خیمہ دیکھ کر خدشہ ظاہر کیا کہ شاید وہاں کوئی قتل ہو گیا ہے۔

وہاں کوئی قتل نہیں ہوا تھا لیکن یہ ایک قسم کی موت ہی تھی۔

کچھ سکاٹس کے لیے شاید آزادی کا خواب ختم ہو گیا ہے، کم از کم ایک نسل کے لیے۔

تقریباً آٹھ ہفتے قبل ان کے استعفے کے وقت سے لے کر نئے لیڈر کو اقتدار سونپنے تک، سٹرجن نے حالات کو دیکھتے ہوئے، جو اب سب کو پتہ ہیں، اپنی سیاسی رخصتی کو اتنی ہی مہارت سے سنبھالا جتنا وہ کر سکتی تھیں۔

اس کے بعد جو کچھ بھی ہوتا ہے (اور یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ان کے شوہر کو 11 گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد بغیر کسی الزام کے رہا کیا گیا تھا۔) سابق وزیراعظم ایک قابل سیاست دان کے طور پر جانی جائیں گی جب کہ اچانک اس فیصلے سے پہلے ایسا نہیں تھا۔

یہ سچ ہے کہ مخصوص غلط فہمیوں کو ان کے زوال کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کی سمت کے پیش نظر، برطانیہ سے آزادی کے دوسرے ریفرنڈم کے لیے ان کا مطالبہ قبل از وقت اور غلط ثابت ہوا۔

ٹرانس لوگوں کی شناخت کے حوالے سے یونین کے باقی حصوں سے زیادہ ترقی پسند ہونے کی اس کی کوشش نہ صرف سکاٹ لینڈ بلکہ لندن میں اس کے مخالفوں کے ہاتھ لگ گئی۔ ان کے قائل کرنے کی طاقت نے بھی اس اقدام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور ویسٹ منسٹر میں حکومت نے حاکمیت کی موجودہ حدود پر زور دینے کے لیے غیر معمولی ترسیل کے ساتھ کام کیا۔

2024 کے عام انتخابات میں سیٹوں کے نقصانات اور سکاٹش پارلیمنٹ پر ان کا کنٹرول گرین پارٹی کی حمایت پر منحصر ہو گا، ایک سیاسی حقیقت پسند کے طور پر انہوں نے مناسب نتیجہ اخذ کیا۔

تاہم ان کی اقتدار سے رخصتی کو صرف اس تناظر میں دیکھنا میرے خیال میں غلط ہوگا۔ ان کی قسمت کو ان کی پارٹی سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور ہو سکتا ہے کہ موجودہ گتھی سلجھانے کے بہت سے اسباب یہاں موجود ہوں۔

ایس این پی یک منشوری پارٹی ہے۔ یہ اس طرح ہی شروع ہوئی اور پروان چڑھی۔

ان کی قسمت سکاٹ لینڈ کی آزادی کے اسباب کی عکاسی کرتی ہے۔ کیا ان کا پروان چڑھنا پارٹی یا اس کے اثر کی وجہ سے تھا؟

دنیا بھر پر نظر دوڑائیں، یک منشوری پارٹیاں جو اجارہ داری کو ختم کرتے ہوئے اقتدار میں پہنچی ہیں یا تو انحراف کے ذریعے یا حقیقی آزادی کے ذریعے ان کی آمد کو روکنے کا رجحان موجود ہے۔

حقیقی سیاسی مخالفت کی عدم موجودگی میں وہ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ وہ نسلی بن جاتے ہیں یا ان کی قیادت گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔

وہ عوامی جذبات کو نظر انداز کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہتر جانتے ہیں۔ وہ طاقت کو معمولی سمجھتے ہیں اور اس میں سرپرستی اور پیسے کی طاقت بھی شامل ہے۔

جنوبی افریقہ میں اے این سی کو ایک بہترین مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک عظیم مقصد جو جیت گیا اور ایک موقع بلکہ بہت سارے مواقع، حقیقت میں ضائع کر دیے گئے۔ ایسی بہت سی یک ایجنڈا پارٹی کی قسمت رہی ہے جو اقتدار جیتتی ہے لیکن پھر جلد یا بدیر ان کے لیے حکومت چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایس این پی کے عروج کے زمانے میں سکاٹ لینڈ نام کے علاوہ ون پارٹی ریاست رہی ہے۔

جس چیز کو سیاست کا عام کٹ اور طاقت سمجھا جا سکتا ہے اس کا اکثر بورڈ کے ذریعے ہی اختتام ہوتا ہے۔ سکاٹ لینڈ کے سکول کے نظام کے ساتھ ساتھ اس کی صحت اور اس کی عوامی سروسز کے اشارے گر رہے ہیں۔

سٹرجن نے کرونا وبا کے دوران سب سے آگے رہنے والی قیادت کے طور پر تعریف سمیٹی لیکن سکاٹ لینڈ کی اصل کارکردگی یعنی اموات اور انفیکشن کی شرح، انگلینڈ سے کچھ مختلف تھی۔

وبائی مرض کے خاتمے کے ساتھ ہی روزمرہ کے خدشات ایک بار پھر قوم پرستی کے مقصد پر غالب آ گئے اور آزادی کے دوسرے ریفرنڈم کی مہم دوبارہ زندہ ہوئی۔

پیچھے مڑ کر یہ پوچھنا آسان ہے کہ ٹونی بلیئر سے لے کر لز ٹرس تک کے تمام حالیہ وزرائے اعظم سکاٹش قوم پرستی کے بارے میں اتنے پریشان کیوں تھے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ یقیناً 2014 میں ریفرنڈم کی ناکامی کے بعد انہیں صرف واپس بیٹھنا تھا، ڈیولوشن کی مالی اور عدالتی حدود کی متواتر یاد دہانی (خاموش) پیش کرتے اور سکاٹش قوم پرستی کی پارٹی کو خود کو ختم کرتے ہوئے دیکھتے۔

پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو بریگزٹ پر جب سکاٹ لینڈ کے عوام کا ووٹ انگلینڈ کے ووٹوں سے اتنے بڑے پیمانے پر مختلف ہو گیا تھا تو شاید اس وقت نظر آنے والی مرکزی طاقت کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔

مستقبل قریب میں برطانوی یونین کے لیے سکاٹ لینڈ کی آزادی کا ایک سنگین خطرے کے طور پر واپس آنے کا امکان نہیں ہے۔ درحقیقت برطانیہ کا اتحاد انحراف کا عمل شروع ہونے کے بعد سے عملی طور پر کسی بھی وقت سے زیادہ محفوظ نظر آتا ہے۔

اگر برطانیہ کا کوئی حصہ الگ ہونے جا رہا ہے تو شمالی آئرلینڈ کا زیادہ امکان نظر آتا ہے۔

یہاں میں ممکنہ طور پر ایک فٹ نوٹ شامل کرتی ہوں اور وہ یہ کہ ایس این پی کی ممکنہ طور پر سنگین مشکلات سکاٹش کی آزادی کی جستجو کو ختم نہیں کریں گی اور نہ ہی انہیں ہونا چاہیے۔

میں نے آزادی کے ریفرنڈم سے پہلے سکاٹ لینڈ بھر سفر کیا اور چھ ستمبر ہفتے کا دن کو گلاسگو میں گزارا۔ یہ وہ دن تھا جسے یاد کیا جا سکتا ہے اس سے پہلے اتوار کے اخبارات نے ایک پول کی اطلاع دی تھی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ آزادی کے لیے اکثریتی ووٹ ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس رائے شماری نے ویسٹ منسٹر میں ہلچل مچا دی تھی۔ منگل کو تمام پارٹی رہنماؤں نے سکاٹ لینڈ تک سخت احتجاج کیا۔

گورڈن براؤن نے یونین کے دفاع میں تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ملکہ کا لہجہ سخت ہو گیا تھا۔ 18 ستمبر کو یونین صرف 10 فیصد کے فرق سے ٹوٹنے سے بچ گئی۔

اس آزادی کی مہم سے مجھے جوش و جذبہ، امید اور مقصد کا احساس آج بھی یاد ہے اور خاص طور پر بہت سے نوجوان حامیوں میں۔ سکاٹ لینڈ کی ایک تاریخ اور روایات ہیں جو سب اس کی اپنی ہیں۔

اس کی شناخت کا ایک مضبوط احساس ہے جو نہ صرف قومیت کو برقرار رکھ سکتا ہے بلکہ ایک آزاد ریاست کے طور پر پھل پھول سکتا ہے۔

اور نہ ہی اقتصادی امکانات کو ایک رکاوٹ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں قوت ارادی ہو وہاں راستے بن ہی جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایک دن نئی سکاٹس نسل اپنی آزادی کا دعویٰ کر سکتی ہے اور مجھے امید ہے کہ پرامن اور احسن طریقے سے علیحدہ ملک بن جائے گا۔ اس کے بعد مورخین سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ سکاٹش نیشنل پارٹی آف سلمنڈ اور سٹرجن نے کس حد تک جلد  بازی کا مظاہرہ کیا تھا اور انہوں نے ان کے مقصد میں کس حد تک رکاوٹ ڈالی تھی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر