سب کے ذہنوں پر 24 نومبر ہی سوار ہے کہ اس دن عمران خان نے اپنے پارٹی کو اور پاکستانیوں کو ملک کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کو کہا ہے۔
تاہم اس کے اندر بہت سے سوال چھپے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے اپنے رہنماؤں کا یہ کہنا ہے یہ احتجاج تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک کہ عمران خان کو جیل سے نہ نکالا جائے۔
بظاہر یہ کہنے کی باتیں ہیں اور اب سے لے کے 24 تک کتنی تیاری ہوتی ہے، کتنے لوگ نکلتے ہیں اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ بہت لوگ نہیں نکلیں گے کیوں کہ اس سے پہلے تحریکِ انصاف متعدد کالیں دے چکی ہے، لیکن لوگ اتنے نہیں نکلے جتنے کی اس جماعت کو توقع تھی۔
لیکن اگر لوگ بڑے پیمانے پر شرکت نہ کر سکیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہو گی کہ عمران خان کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے عائد کردہ سخت رکاوٹیں یقیناً سب سے بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ شاید تھک بھی گئے ہیں، گھبرا بھی گئے ہیں لیکن عمومی طور پر عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ قائم دکھائی دے رہی ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔
خیبر پختونخوا میں چونکہ حکومت ہی پی ٹی آئی کی ہے، اس لیے لامحالہ وہاں پی ٹی آئی کی حمایت بھی سب سے زیادہ ہے۔ البتہ تحریکِ انصاف کا دعویٰ یہ ہے کہ اس مرتبہ پنجاب اور سندھ سے بھی لوگ بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔
حکومت نے بھی اس احتجاج کو کچلنے کی پوری تیاری کر لی ہے۔ ابھی سے رینجرز اور ایف سی کو بلانے کا اور سکیورٹی سنبھالنے کا حکم صادر ہو گیا ہے۔
دوسری طرف ٹرانسپورٹ والے الگ رونا رہے ہیں کہ اگلے پانچ چھ روز میں انہیں سخت کاروباری نقصان ہو گا، کیونکہ حکومت جب سڑکیں روکتی ہے تو مظاہرین سے زیادہ اس کی زد میں عام لوگ آتے ہیں۔
خدشہ ہے کہ ایک بار پھر وہی حالات بنیں گے جن کے ہم لوگ عادی ہوتے جا رہے ہیں کہ سڑکیں بند، ٹریفک معطل، عام شہریوں کے معمولاتِ زندگی درہم برہم، مریضوں کو تکلیف۔
پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی شروع ہونے والا ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے کہ شاید اسی ڈر سے لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے رہیں اور یہ پکڑ دھکڑ صرف رہنماؤں تک محدود نہیں رہتی بلکہ مظاہرین کے رشتے داروں کو اٹھایا جاتا ہے۔
لوگ اس خدشے کے پیشِ نظر ادھر ادھر ہو جاتے ہیں پھر اور پولیس اور ان کی آنکھ مچولی شروع ہو جاتی ہے۔
آخر کار معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں، جہاں کیس شروع ہو جاتے ہیں اور پہلے سے لاکھوں کیسوں کے انبار تلے دبی عدالتوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ ایک اور معاملہ بھی نتھی ہے جو معمولاتِ زندگی کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ وہ ہے ڈیجیٹل دنیا میں سکیورٹی کے نام پر لگائی جانے والی بندشیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب سڑک بند ہوتی ہے تو صرف مظاہرین نہیں، عام لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب انٹرنیٹ بند کیا جاتا ہے تو اس کی زد میں بھی زیادہ تر عام لوگ ہی آتے ہیں۔
نہ جانے کتنے طلبہ ہیں جو آن لائن پڑھائی کرتے ہیں۔ نہ جانے کتنے نوجوان ہیں جو آن لائن روزگار کماتے ہیں۔ بےشمار بزنس ایسے ہیں جو چلتے ہی آن لائن ہیں۔ ان سب پر بریک لگ جاتی ہے۔
عجیب ستم ظریفی ہے کہ حکمران اور حکومت تو کھل کے سوشل میڈیا کا استعمال کریں، لیکن عوام کے لیے بندشیں لگا دیں اور ساتھ ہی ملکی اور بین الاقوامی فورموں پر اعلان بھی کرتے پھریں کہ مستقبل ڈیجیٹل کا ہے اور ترقی کا یہی راستہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت ہر صورت اور ہر ہتھکنڈا استعمال کر کے پی ٹی آئی کو دبانا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی آپس میں بات چیت کو ختم کرنا، لوگوں کے ساتھ اس جماعت کا رابطہ توڑنا، ان کی آواز کو ہر صورت دبانا، تو بس اسی بھاگ دوڑ میں حکومت اپنی تمام تر توانائیاں جھونکے ہوئے ہے کہ ایسا لگتا ہے ملک میں اور کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔
پی ٹی آئی کے تعاقب میں حکومت عجیب و غریب حدیں پار کرتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں آنے والا فتویٰ کہ وی پی این استعمال کرنا غیر شرعی ہے۔ کون شخص ایسا ہو گا جو اس فتوے کو سنجیدگی سے لے اور اس کے سیاسی مقاصد کو نظر انداز کر سکے؟
بس حکومت کی اولین و آخرین ترجیح یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں کے دلوں سے نکالا جائے، مگر یہ ہو نہیں پا رہا۔
24 نومبر کو احتجاج کتنا کامیاب ہو گا، یہ تو وقت بتائے گا لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ چاہے جتنے لوگ نکلیں، حکومت قدغنیں لگا کر اس احتجاج کو پہلے ہی سے کامیاب بنا دیتی ہے۔
اس لیے بھلے پانچ لاکھ لوگ نہ نکلیں، چاہے 50 ہزار بھی نہ نکلیں، مگر جتنے بھی لوگ نکلیں، پی ٹی آئی کا پیغام آگے جائے گا اور جو پکڑ دھکڑ، قید و بند، پابندیاں لگیں گی، ان کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو گا۔
ایک اور پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ بشریٰ بی بی بھی اب میدان میں آ گئی ہیں۔ ساتھ میں عمران خان کی بہنیں پہلے ہی سے متحرک ہیں۔ کچھ سیاسی کیسز اور قانونی ناانصافیاں سامنے آ رہی ہیں۔
دو روز پہلے ہی اسلام آباد پولیس کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ کو مطلع کر دیا گیا ہے عمران خان کے خلاف اسلام آباد پولیس ہی نے 62 کیس دائر کیے ہوئے ہیں۔
اس کے برعکس مختلف ہائی کورٹس نے عمران خان کو متعدد کیسز میں بری کیا ہے۔ سوال تو اٹھتا ہے کہ قانون کہاں ہے اور انصاف کیا غائب ہے؟
ان کیسوں کی قانونی حیثیت چاہے جو بھی ہو، عوام میں اس جو تاثر جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس جنگ میں حکومت ہار رہی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔