سکاٹ لینڈ کی حکومت نے منگل کو خواتین کا عالمی دن کے موقعے پر ان ہزاروں خواتین سے باضابطہ معافی مانگی جنہیں صدیوں قبل جادو ٹونے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق معافی مانگنے کی مہم چلانے والے سکاٹ لینڈ کی جادوگرنیوں کے گروپ کے مطابق سولہویں اور اٹھارویں صدی کے درمیان تقریباً چار ہزار افراد پر جادو ٹونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
ان میں سے مجموعی طور پر 2500 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جن میں 20 فیصد خواتین شامل تھیں۔ اعتراف کرنے کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان میں سے زیادہ تر کا گلا گھونٹ کر انہیں جلا دیا گیا۔
سکاٹش قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے کہا: ’یہ بڑے پیمانے پر ناانصافی‘ ہے جو’کم از کم اپنے لفظی معنوں میں خواتین سے نفرت‘ کی وجہ سے ہوئی۔
انہوں نے کہا: ’ایک ایسے وقت میں جب خواتین کو عدالت میں بطور گواہ بات کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی، ان پر الزام لگایا گیا اور انہیں قتل کردیا گیا کیونکہ وہ غریب، مختلف، کمزور یا بہت سے معاملات میں ان کی شمولیت کی وجہ صرف ان کا خواتین ہونا تھا۔‘
نکولا سٹرجن کے مطابق: ’میں اس سنگین، تاریخی ناانصافی کو تسلیم کرنے اور جادو ٹونہ ایکٹ 1563 کے تحت سزا یافتہ، بدنام یا پھانسی پانے والے تمام افراد سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جادوگرنیوں کے خلاف مہم کو سکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز ششم نے جوش و خروش سے فروغ دیا، جو 1603 میں انگلستان کے بادشاہ جیمز اول بھی کہلائے۔
ولیم شیکسپیئر کے ’سکاٹش ڈرامے‘ میں ان کے جنون کو دکھایا گیا جس میں تین جادگرنیوں کو دکھایا گیا تھا، جو میکبیتھ کو اس کی تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔
نکولا سٹرجن کے مطابق کچھ ناقدین نے صدیوں بعد معافی مانگنے کے نکتے پر سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا: ’یہ پوچھنا دراصل مناسب ہے کہ اس میں اتنا وقت کیوں لگا۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’ناانصافی کا اعتراف کرنا اہم ہے، چاہے وہ کتنی ہی تاریخی کیوں نہ ہو۔‘
نکولا سٹرجن نے مزید بتایا کہ سکاٹ لینڈ نے 1967 میں برطانیہ کی جانب سے ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دینے سے قبل ہم جنس پرست ہونے کے جرم میں سزا یافتہ مردوں سے باضابطہ طور پر معافی مانگ لی تھی۔