ڈونلڈ ٹرمپ 2004 میں تقریباً ایک ہفتہ قبل جارج ڈبلیو بش کے بعد پہلے رپبلکن صدارتی امیدوار بنے جنہوں نے الیکٹورل کالج اور قومی عوامی ووٹ دونوں جیت لیے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بش کی بدنام زمانہ غلطیاں کو دہرانے جا رہے ہیں۔
بش، جنہوں نے چار سال قبل سپریم کورٹ کی مدد سے بمشکل الیکٹورل کالج میں کامیابی حاصل کی تھی، نے 2004 میں اس وقت کے میساچوسٹس سے سینیٹر جان کیری پر فتح کو ملک کے سماجی تحفظ کے نظام میں بڑی تبدیلیاں کرنے کے مینڈیٹ کے طور پر لیا۔
2004 میں اپنی جیت کے بعد ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ اس کامیابی سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ’عوام نے آپ کے نقطہ نظر کو قبول کر لیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ اس رویے کو آنے والی ریپبلکن اکثریتی کانگریس تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے مہم کے دوران سرمایہ، سیاسی سرمایہ حاصل کیا، اور اب میں اسے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘
بش جو کچھ ’خرچ‘ کرنا چاہتے تھے وہ ایک دلیرانہ منصوبہ تھا جس کے تحت سماجی تحفظ کو بتدریج پرائیویٹ ریٹائرمنٹ اکاؤنٹس کے نظام سے تبدیل کیا جانا تھا، جو امریکی عوام کو اس یقینی فائدے کو سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگانے کے اختیار سے بدل دیتا۔
یہ منصوبہ کبھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اس وقت ایوان نمائندگان میں اقلیت کی رہنما نینسی پیلوسی اور سینیٹ میں ہیری ریڈ کی قیادت میں ڈیموکریٹس نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ انہوں نے ابتدا ہی میں یہ فیصلہ کر لیا کہ بش کے منصوبے پر نہ تو غور کریں گے اور نہ ہی رپبلکن پارٹی کے ساتھ کسی قسم کی مصالحتی قانون سازی پر بات چیت کریں گے اور کسی ڈیموکریٹک متبادل کی پیشکش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ رپبلکن پارٹی کے ایک بڑے حصے کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ ان کے رہنما کا منصوبہ، سیدھے الفاظ میں، عوام میں بہت زیادہ غیر مقبول ہے۔ ڈیموکریٹس کی متحدہ مخالفت کے ساتھ ساتھ ردعمل اتنا شدید تھا کہ نہ ایوان نمائندگان اور نہ ہی سینیٹ نے کبھی بش کے پرائیویٹ ریٹائرمنٹ اکاؤنٹس کے لیے قانون سازی پر غور کیا۔
20 سال بعد ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ عوام کی اس خواہش کو غلط سمجھ رہے ہیں کہ وہ پورے حکومتی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق بدل ڈالیں۔
بدھ کو انہوں نے دنیا کو حیران کر دیا جب انہوں نے ہوائی سے سابق کانگریس ویمن تلسی گیببرڈ کو، جو ایک سابقہ ڈیموکریٹ ہیں، بطور ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس نامزع کرنے کا اعلان کیا۔
گیببرڈ کے پاس نہ تو خارجہ پالیسی کا تجربہ ہے اور نہ ہی انٹیلیجنس کا۔ ان کی تاریخ روسی پروپیگنڈے کا بیانیے دہرانے کی ہے۔ انہیں ایورل ہینز، جو اس عہدے پر بہت زیادہ احترام کے ساتھ فائز تھیں، کی جگہ نامزد کیا گیا۔
ٹرمپ نے امریکی قانونی حلقوں کو اسی طرح حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے فلوریڈا کے متنازع سیاستدان میٹ گیٹس کو اٹارنی جنرل کے عہدے کے لیے منتخب کیا۔ گیٹس، جو اب تک رپبلکن رکن کانگریس کے رکن کے طور پر کام کر رہے تھے، کئی سال سے سکینڈلز کی زد میں ہیں۔
42 سالہ گیٹس، جو ورجینیا کے کالج آف ولیم اینڈ میری میں قانون کے مشہور سکول کے گریجویٹ ہیں، کے پاس نہ تو کسی پراسیکیوٹر کے طور پرکام کا تجربہ ہے اور نہ ہی قانونی تحقیق کے میدان میں کوئی نمایاں خدمات۔ لیکن ان کا عوامی میدان میں ایک ریکارڈ ضرور ہے جس میں وہ ٹرمپ کے سخت حامی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر کانگریس کی جانب سے اور فوجداری تحقیقات کے دوران جو نو منتخب صدر کے خلاف جاری رہی۔
ٹرمپ نے یہ عہد بھی کیا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’قابو میں‘ لائیں گے اور مجرمانہ تحقیقات کو اپنے اور اپنے اتحادیوں سے دور رکھیں گے اور بالواسطہ طور پر انہیں ٹرمپ کے مخالفین کی طرف موڑیں گے۔
جمعرات کو ٹرمپ نے اپنے ناقدین کو مزید مشتعل کر دیا جب انہوں نے اعلان کیا کہ ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز، ایک وسیع و عریض ادارہ، جو کھانے، دواؤں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کی طبی تحقیق کے لیے فنڈ فراہم کرتا ہے، معمر شہریوں اور غریب امریکیوں کے علاج معالجے سمیت اور میڈیکیڈ ہیلتھ انشورنس سسٹمز چلاتا ہے، کی سربراہی رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کریں گے۔
رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر، جو قتل ہونے والے نیویارک سے سینیٹر اور سابق اٹارنی جنرل رابرٹ ایف کینیڈی سینئر کے بیٹے ہیں، کبھی ماحولیات کے قانون کے ایک قابل احترام ماہر تھے، لیکن بعد میں وہ ویکسینز اور آٹزم کے درمیان ایک غیر موجود تعلق پر مبنی غلط نظریات کو فروغ دینے لگے۔ انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ محکمہ صحت و انسانی خدمات میں کام کرنے والے سینکڑوں سائنسی ماہرین کو برطرف کرنے اور نئی ادویات اور علاج کی منظوری کے عمل کو الٹ پلٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ خوراک کی حفاظت اور ماحولیاتی زہریلے مادوں اور دائمی بیماریوں کے غیر تصدیق شدہ روابط پر مرکوز کرنے کے حق میں حکومتی انتظامی کوششوں کو ازسرنو ترتیب دینا چاہتے ہیں۔
گیببرڈ، گیٹس، اور کینیڈی کے انتخاب نے ڈیموکریٹس کو سخت ناراض کیا ہے، جنہوں نے ان تقرریوں کو غیر سنجیدہ اور یہاں تک کہ خطرناک قرار دیا ہے۔
ٹرمپ کے ان متنازع انتخابی فیصلوں سے ان کے اپنی ہی پارٹی کے معتدل سوچ رکھنے والے ارکان سینیٹ کے ساتھ تعلقات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ارکان سینیٹ کابینہ میں ان عہدوں کے لیے نامزد افراد کی منظوری کے ذمہ دار ہوں گے۔
خاص طور پر، میٹ گیٹس نے سینیٹ رپبلکن کانفرنس کے ارکان کی شدید مخالفت کا سامنا کیا جن میں سے کئی اب بھی گذشتہ اکتوبر میں اس وقت کے ہاؤس سپیکر کیون میکارتھی کو عہدے سے ہٹانے میں ان کے کردار پر ناراض ہیں۔ ہاؤس کے سب سے اہم رپبلکن رکن کو اس غیر معمولی طور پر عہدے سے ہٹائے جانے کی کارروائی نے ایوان نمائندگان کو مہینوں تک افراتفری میں مبتلا رکھا اور میکارتھی نے گیٹس کے اقدامات کو ان کی جانب سے اپنی اخلاقی تحقیقات کو ختم کرنے کی خواہش سے منسوب کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب ایوان نمائندگان کے سابق رکن (جنہوں نے جمعرات کو استعفیٰ دے دیا، ممکنہ طور پر اخلاقی تحقیقات کی رپورٹ کے اجرا کو روکنے کے لیے) اپنے سابقہ ساتھیوں میں وسیع پیمانے پر ناپسندیدہ ہیں، اور متعدد رپبلکن سینیٹرز نے اشارہ دیا ہے کہ گیٹس کو سینیٹ کے فلور پر ووٹ حاصل کرنے سے پہلے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن ہو سکتا ہے کہ کینیڈی جو اینٹی ویکسین کارکن اور سازشی نظریات کے حامی ہیں، ٹرمپ کی سیاسی حکمت عملی کے لیے سب سے زیادہ درد سر بن جائیں۔
امریکہ کے سب سے مشہور ڈیموکریٹ خاندان کے رکن ہونے کے ناطے، کینیڈی نے طویل عرصے تک اپنی خاندانی پارٹی کی تولیدی آزادی اور ایل جی بی ٹی پلس حقوق پرمؤقف برقرار رکھا ہے۔ ایسے مؤقف جو اس پارٹی کے خلاف ہیں جس کی وہ نئی ٹرمپ انتظامیہ میں شمولیت کے بعد خدمت کریں گے۔
انسداد اسقاط حمل اور ایل جی بی ٹی پلس حقوق کی قانونی تنظیم الائنس ڈیفینڈنگ فریڈم کے ریگولیٹری امور کے ڈائریکٹر میٹ باؤمن نے ایک بیان میں کہا کہ ان کی تنظیم ’امید کرتی ہے کہ نو منتخب صدر ٹرمپ ایسے رہنما مقرر کریں گے جو قانون کی پیروی کریں اور ان لوگوں کی زندگیوں اور صحت کو فروغ دیں جن کے تحفظ کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ جہاں تک ای ایچ ایس کا تعلق ہے، بائیڈن انتظامیہ نے اپنی بیوروکریسی کو انتہا پسندی کی طرف مائل کر دیا تاکہ غیر قانونی طور پر اسقاط حمل اور جنس کی تبدیلی کے لیے خطرناک آپریشنوں کے غیر قانونی اختیار سمیت انہیں فروغ دیا جا سکے۔ اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ اس کے رہنما قانون کی حکمرانی کو بحال کریں گے، حیاتیاتی حقیقت کا احترام کریں گے، اور ریاستوں کو زندگی کے کسی بھی مرحلے پر بچوں کی حفاظت کا اختیار دیں گے۔‘
اگرچہ رپبلکن ارکان بعض سماجی مسائل پر مختلف خیالات کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہے ہیں، کینیڈی کی اسقاطِ حمل کے حق میں تاریخ سینیٹ کے رپبلکن پارٹی کے لیے اتنی ہی ناقابل قبول ثابت ہو سکتی ہے جتنا کہ گیٹس کی مبینہ جنسی بدسلوکی کا پس منظر۔
اگرچہ ٹرمپ کے پاس ریپبلکنز کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کروانے کا ریکارڈ موجود ہے، لیکن ممکن ہے کہ ریپبلکن سینیٹرز ان تازہ ترین ٹرمپ نامزدگیوں کی توثیق کے لیے’ہاں‘ کے ووٹ کے ساتھ آنے والی منفی سرخیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اینڈریو فائن برگ انڈپینڈنٹ اردو کے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگار ہیں اور امریکی سیاست، کانگریس اور امریکی صدور سے متعلق خبریں کور کرتے ہیں۔
© The Independent