وہ میری امی کی دوست کی بیٹی تھی۔ آنکھوں میں ذرا سا ٹیڑھا پن تھا اور نو سال کی عمر میں بھی تتلا کے بولتی تھی۔
ہم ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے اور کلاس فیلوز بھی تھے۔ سکول کے دیگر بچے اسے آتے جاتے ’کانی، کانی‘ پکارتے تو وہ پلٹ کے انہیں گالیاں دیتی اور جب وہ بولتی تو اس کے تتلانے پر سب قہقہے لگانے لگتے۔
میں اخلاقی طور پر ذرامحتاط سی تھی اس لیے اسے کبھی ایسا نہ کہا البتہ جب دوسرے ہنستے تھے تو میں بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے ان کے ساتھ شامل ہو جاتی۔
ایک روز وہ ہمارے گھر کھیلنے کے لیے آئی ہوئی تھی اور کھیل کھیل میں اس نے میری گڑیا کے بال خراب کر دیے۔ میں نے غصے میں جھنجھلا کر اسے دوسرے سکول فیلوز کی طرح ’کانی‘ کہہ دیا۔ میرا مقصد تھا کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے اور وہ بھی اسی اذیت سے گزرے جس سے مجھے اور میری گڑیا کو گزرنا پڑا ہے۔
لیکن پہلی بار میں نے دیکھا کہ وہ پلٹ کے مجھے گالیاں تو دے رہی تھی مگر ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھی اور ساتھ ساتھ کہتی جا رہی تھی کہ ’تم تو میری سہیلی تھیں۔‘
شروع میں میں نے چاہا کہ میں ویسے ہی ہنسوں جیسے سب ہنستے ہیں لیکن اس کے آنسوؤں نے مجھے گم صم کر دیا۔ یہ تو سمجھ نہیں پائی میں کہ اسے روتے سے چپ کیسے کروانا ہے، لیکن ہاں اتنا ضرور سمجھی کہ چاہے ساری دنیا کہتی میں اس کی دوست تھی مجھے ایسا نہیں کہنا تھا۔
اس دن کے بعد میں اس سے شرمندہ رہتی اور وہ شاکی۔ اس طرح میں نے ایک اچھی اور حساس دل رکھنے والی دوست کو گنوا دیا۔
لیکن اس کی تکلیف کا اندازہ تب ہوا جب مجھے خاندان بھر میں چھوٹے قد کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ میری بڑی بہن کو ’چشمش‘ اور ایک بہن کو وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے ’بھینس‘ اور اسی کو آنکھیں بہت بڑی ہونے کی وجہ سے ’ڈیلو پا‘ پکارا جاتا۔
جس کزن کا قد لمبا تھا اسے میٹرک میں پہنچنے سے قبل ہی بڑی سی چادر اوڑھا دی گئی اور اسے ’ڈھانگا‘ کہہ کے بلایا جاتا۔ جو گورا تھا اسے ’چٹا دھوں‘ اور جو سانولا تھا اسے ’بگا‘ یا ’کالا‘ کہہ کے چھیڑا جاتا۔
اب شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے جب اس قابل ہوئے کہ ان رویوں کو سمجھ سکیں تب تک چھوٹے قد، کالے رنگ، پتلے یا موٹے ہونے کے احساس کم تری میں گھر کے ایسے ایسے کمپلیکسز کا شکار ہو چکے تھے کہ اعتماد نام کی چڑیا ہاتھ آتی ہی نہ تھی۔
جہاں کہیں 10 لوگوں میں بات کرنے کا موقع ہوتا تو لمبے قد کے لوگ دیکھ کر اپنے چھوٹے قد پر شرمندہ ہو کر سر اٹھا کے بات کرنے کا ڈھنگ ہی بھول جاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اونچی ایڑی والے جوتوں کی مارکیٹ ہے ہی اس کمپلیکس کی بنیاد پر، تو اونچی ہیل کے جوتے پہن کر چلنے کے شوق میں پاؤں زخمی کرواتے، تو کبھی کمر درد میں مبتلا ہو کر چور ہو جاتے۔
رہی سہی کسر رشتے کے لیے آنے والوں نے پوری کر دی، جن کے لیے لڑکی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا، برسر روزگار ہونا اور اچھے خاندانی پس منظر سے ہونا کافی نہیں ہوتا۔ وہاں کبھی کالے رنگ، چھوٹے قد، فربہ جسم اور نظر کی عینک وغیرہ ہی کسی شادی کی کامیابی میں بڑی بڑی رکاوٹیں سمجھ کر لڑکیوں کو آج بھی رد کر دیا جاتا ہے۔
ہماری کامیڈی کو دیکھیں تو ڈراموں، فلموں اور سٹیج پر لوگوں کو ہنسانے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ موٹے، کالے، دبلے پر جگتیں لگائی جائیں۔ بلکہ بعض شوز میں تو دیکھا گیا ہے کہ جان بوجھ کر ایسی جسمانی ساخت رکھنے والے اداکاروں کو سٹیج پر رکھا جاتا ہے جن کے جسم نشانے پر رکھے جا سکیں۔
افسوس تو تب ہوتا ہے جب یہاں ووٹ بھی کسی کے ہینڈسم ہونے یا نہ ہونے کے بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ آپ کے وزیر خارجہ کو پوری دنیا میں سراہا جاتا ہے اور آپ یہاں اس کی نسائی اداؤں کو لے کر جگتیں مارتے ہیں۔
ہمارے پاس مذاق کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے دوسرے کا مذاق اڑانا، کیونکہ ہمیں مذاق کرنے اور مذاق اڑانے میں کبھی امتیاز کرنا آیا ہی نہیں۔ ہمیں لگتا ہے جو زیادہ جگت باز ہے وہ زیادہ کامیاب ہے اور جگت کا معیار بھی ہمارے پاس سامنے والے کی جسمانی اور ظاہری کمیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اخلاقی اقدار کا ڈھنڈورا پیٹتے اور سنتے ہماری عمریں گزر گئی ہیں لیکن جیسے ہی موقع آتا ہے ہم سب سے پہلے، ان اقدار کو پامال کرتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے جو ہم کر رہے ہیں وہ جائز ہے جبکہ اگر دوسرا ہمیں ہماری عمر اور ظاہری شکل و صورت کے حوالے سے کچھ کہے تو ان اخلاقیات کا پاٹ نہ صرف یاد آ جاتا ہے بلکہ اس بنیاد پر دوسروں کو شرمندہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
سوال یہ ہے کہ مسئلہ تو سب کے سامنے ہے مگر اس کا حل کیا ہے؟
اگر اس کے متعلق آپ سوچنے لگے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے بس یہ ٹھان لیں کہ اب کسی کو شکل و صورت، ذات پات اور امارت کی بنیاد پر مذاق کا نشانہ نہیں بنانا اور جب کوئی دوسرا آپ کے ساتھ ایسا کرے تو بھی اس کے مذاق کی بنیاد پر خود کو احساس کمتری کا شکار نہیں کرنا تو زندگی کس قدر آسان ہو جائے گی۔
یاد رکھیں کہ مذاق کرنا اور چیز ہے، مذاق اڑانا اور۔ ایک کا مقصد لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرنا ہے، دوسرے کا مقصد ذلیل کرنا ہے۔
ایک دوسرے کی عزت کریں اور باڈی شیمنگ سے گریز کریں تاکہ جو آپ پر اور ہم پر گزری ہے اس کا شکار ہمارے آس پاس کے لوگ نہ ہوں۔ اور ہماری اگلی نسل ان فضول معاملات سے ماورا ہو کر زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ پائے۔