خطرناک کیپٹاگون کے خلاف سعودی عرب کی جنگ جاری: رپورٹ

جو دوا ساٹھ کی دہائی میں ایک بیماری کے علاج کے لیے تیار کی گئی تھی آج اسے شدت پسند تنظیمیں استعمال کر رہی ہیں۔

10 اپریل، 2022 شام کے باغی گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) سے تعلق رکھنے والے جنگجو شمالی صوبہ حلب کے مغربی دیہی علاقے میں ڈارٹ عزا میں ایک چیک پوسٹ پر پکڑی گئی منشیات دکھا رہے ہیں (عمر حج کدور/ اے ایف پی)

شام سے عراق تک، لبنان اور اردن سے خلیجی ممالک تک عرب دنیا پر ایک حملہ ہو رہا ہے۔

دشمن کا نام  کیپٹاگون ہے۔ ایک کیمائی دوا ہے جو ساٹھ کی دہائی میں جرمنی میں تیار کی گئی تاکہ اے ڈی ایچ ڈی جیسی بیماریوں کا علاج کر سکے۔

اسی کی دہائی میں منفی اثرات کی وجہ سے کیپٹاگون پر عالمی سطح پر پابندی عائد کر دی گئی۔

اب اسے شام اور لبنان کی لیبارٹریوں میں تیار کیا جا رہا ہے۔ اسے مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر سمگل کیا جاتا ہے۔

یہ دوا اس خطے کے لوگوں اور خاندانوں کو متاثر کر رہی ہے۔  

عرب نیوز کی تحقیقات کے مطابق شام میں اسد حکومت اور لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا ایک طاقت ور اور زہریلی گولی کا بنیادی ذریعہ ہیں جو پورے خطے میں زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے۔

یہ بات سامنے آئی ہے ’دی کنگڈم بمقابلہ کیپٹاگون‘ نامی تحقیق میں۔ سعودی اخبار عرب نیوز کے ریسرچ اینڈ سٹڈیز یونٹ نے یہ تحقیق کی جس میں بیروت، جدہ، مکہ اور شامی کردستان سے انٹرویوز اور معلومات اکٹھی کی گئیں۔

کیپٹاگون کے آدھے ہلال والے دو منفرد نشانوں کی وجہ سے اسے عرب دنیا میں ابو ھلالین کا نام دیا ہے۔

یہ باآسانی حاصل کیے گئے اجزا سے کم قیمت پر تیار کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے کوئی خاص آلات کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ولید، ایک زیر علاج عادی مریض ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شروع میں اللہ سے بہت دور تھے۔

’میں خود کو ایک چھوٹے سے کمرے میں الگ تھلگ کر لیتا تھا۔ پھر میرا موڈ خراب رہنے لگا۔ اپنے خاندان کے ساتھ بہت جارحانہ اور بے حس تھا اور میں اپنے بچوں کے ساتھ سخت تھا۔

’میں ناصرف اپنے خاندان کے ساتھ بلکہ معاشرے کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کر رہا تھا، کبھی بھی لوگوں کے آس پاس آرام دہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ میں کبھی کبھی شرم محسوس کرتا تھا اور خودکشی کرنا چاہتا تھا۔‘

اس ڈرگ کے زیر اثر افراد جرائم میں ملوث ہیں۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں پولیس کا کہنا ہے کہ سفوا شہر میں منشیات کے اثر میں ایک شخص نے اپنے رشتہ داروں پر حملہ کیا۔

شوہر اور بیوی کے ساتھ دو نوجوان بچوں کو ایک کمرے میں بند کر کے جلا کر مار دیا۔

 

استعمال کرنے والے

خطرات کے باوجود کیپٹاگون اس خطے میں نوجوان نسل کی پسندیدہ منشیات بن گئی ہے۔ اسے نوجوان طلبہ سے لے کر لمبے سفر کرنے والے ٹرک ڈرائیوز استعمال کر رہے ہیں۔

جو لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں ان میں سے بہت کم کو اس بات کی پرواہ ہے یا وہ جانتے ہیں کہ یہ کتنی خطرناک منشیات ہو سکتی ہے۔

نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ کی کیرولائن روز کہتی ہیں کہ انہوں نے اس بات کے ثبوت دیکھے ہیں کہ کیپٹاگون کی شپمنٹس سعودی عرب اور کئی دیگر ممالک پہنچتی ہیں۔

’یہ زیادہ تر سعودی عرب پہنچ رہی ہیں جو ہمیں اس کی بڑھتی ہوئی مانگ کا اشارہ دیتی ہے۔ بدقسمتی سے اور یہ میری رائے ہے کہ کیپٹاگون ایک ایسا معاشرتی ٹیبو ہے جس پر انحصار کے بارے میں کوئی زیادہ تحقیق نہیں ہوئی۔

’اس وجہ سے عوامی آگہی نہیں اور نہ ہی معلومات دستیاب ہیں کہ یہ کیسے استعمال کی جاتی ہے اور کس قسم کے لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔‘

سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ کیپٹاگون استعمال کرنے والوں میں درد اور خوف کے احساس کو ختم کر دیتی ہے۔ اسے ناقبال تسخیر ہونے کا احساس دیتی ہے۔

اس کی ان خصوصیات کی وجہ سے داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے جنگجو اسے استعمال کر رہے ہیں۔

کرد سپیشل فورسز کے ایک سپاہی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شمالی شام میں کبانی کے 2014 کے محاصرے کے دوران داعش کے جنگجوؤں نے بےرحمانہ حملے سے قبل یہ گولیاں کھائیں۔

’خودکش حملوں سے قبل بھی وہ کیپٹاگون کے زیر اثر رہتے تھے۔ یہ انہیں تقویت دیتی تھی اور حملوں کے بعد ہمیں خون کے دھبوں سے بھرے کیپٹاگون کے تھیلے ملے ہیں۔‘

سرحدوں پر جنگ

ہر سال یہ خطرناک گولیاں لاکھوں کی تعداد میں مشرق وسطی کے ممالک کو بشمول سعودی عرب سمگل کی جاتی ہیں۔  

عرب نیوز کی نامہ نگار نادیہ الفاعور کہتی ہیں کہ شام میں کیپٹاگون کی موجودگی، وسیع اور غلط استعمال 2011 میں وہاں جنگ کے آغاز کے بعد سے جاری ہے۔ وہاں موجود ہر گروپ پر اسے لینے کا الزام تھا۔

’جب میں اربیل، کردستان میں داعش کے خلاف سرگرم سپیشل فورس کے فوجی سے عرب نیوز کے لیے بات کرنے گئی تو ان کا مشاہدہ سنسنی خیز تھا۔

’داعش خودکش حملوں، بےقصور شہریوں کے ریپ اور قتل جیسی خوف ناک کارروائیوں اور جنگوں کے لیے ان گولیوں پر انحصار کرتی تھی۔

’ناصرف یہ بلکہ وہ اپنے شکار کو زبردستی کیپٹاگون کھلاتی تھی تاکہ وہ تشدد اور ریپ کے طویل سیشن برداشت کر سکیں۔‘

کئی ممالک جن میں اٹلی، لبنان، ترکی، عراق، متحدہ عرب امارات اور اردن شامل ہیں لاکھوں گولیاں ضبط کی گئیں۔ البتہ سعودی عرب ان سمگلرز کے لیے نمبر ایک ہدف ہے۔

60 کروڑ سے زائد کیپٹاگون گولیاں سعودی عرب کی سرحدوں اور ڈرائی پورٹس پر گذشتہ چھ برسوں میں ضبط کی گئیں۔ ان میں سے 19 کروڑ گولیاں 2020 اور 2021 میں پکڑی گئیں۔

سعودی انسداد منشیات ڈائریکٹریٹ کے ترجمان محمد النجيدي کہتے ہیں کہ منظم جرائم کے نیٹ ورکس نے سعودی عرب کو منشیات سے نشانہ بنانے کے لیے متعدد ذرائع اور طریقے استعمال کیے، لیکن ’خدا کا شکر ہے انسداد منشیات کے اہلکار اور وزارت داخلہ کے مختلف محکمے اس طرح کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔

’خدا کا شکر ہے کہ ایسی منشیات کو کسی بھی بندرگاہ سے داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

’میں سمگلنگ کے اس زخم سے لڑنے کے لیے [سرکاری عہدے داروں کے درمیان] تعاون پر بھی روشنی ڈالتا ہوں۔ بڑی مقدار میں منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے ہمارے پاس زکوٰۃ، ٹیکس اور کسٹم اتھارٹی اور وزارت داخلہ کے دیگر شعبوں اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطے ہیں۔

’اس طرح کی کوششوں کو روکنے کے لیے دوست ممالک کی ایجنسیوں کے ساتھ ہمارے نتیجہ خیز، کامیاب اور عظیم تعلقات ہیں۔‘

محمد النجيدي کا کہنا ہے کہ ان جرائم پیشہ نیٹ ورکس کے منصوبے جنہوں نے منشیات کی پیداوار، سمگلنگ، وصولی اور تقسیم میں مہارت حاصل کی ہے [ناکام بنا دیا گیا]۔ ہم ان تمام اندرون و بیرون ملک تمام عناصر کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے۔

وہ سمگلنگ کے لیے نت نئے طریقے استعمال کرتے رہتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ اس کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہم ہمیشہ چوکس رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر انار، سیب، انگور، مصالحوں اور پھلوں کی کھیپ، تعمیراتی مواد، لکڑی، لوہا، گاڑیوں اور ٹائرز کے ذریعے سمگلنگ کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔

آج تک کی سب سے بڑی ضبطگی اگست 2022 میں ساڑھے چار کروڑ کیپٹاگون کی گولیاں تھیں جن کی مالیت ایک ارب ڈالرز تھی۔ یہ مقدار ریاض میں آٹے کی شپمنٹ سے ملی تھی۔

طاقت ور گینگ اس سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ نامہ نگار عرب نیوز نادیہ الفاعور کہتی ہیں کہ بہت سے مردوں کو منشیات کا کاروبار معاشی مشکلات کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔

’ان کے پاس اپنے آپ یا اپنے خاندان کی کفالت کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ حزب اللہ ملک میں بڑے گروپ کے طور پر جانا جاتا ہے جو ان گولیوں کی لبنان اور شام میں تیاری اور سمگلنگ میں مدد کرتا ہے لیکن یہ محض حزب اللہ تک محدود نہیں۔

’ایک یا دوسرے طریقے سے ہر شعبہ اس میں ملوث ہے۔ آزاد سمگلر اور بنانے والے ملوث ہیں لیکن یہ اتنے پڑے پیمانے پر نہیں جتنا کہ سیاسی پشت پناہی والے ہیں۔‘

عرب نیوز کی تحقیقات کے مطابق شام میں اسد حکومت اور لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا ایک طاقتور اور زہریلی دوا کا بنیادی ذریعہ ہیں جو پورے خطے میں زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے۔

نارکو ریاست

شام میں خانہ جنگی کے آغاز اور بشار الاسد کی حکومت پر پابندیوں کے بعد سے زیادہ تر کیپٹاگون کی تیاری یہیں کی حکومت سے منسلک فیکٹریوں میں ہو رہی ہے۔

دسمبر 2022 میں امریکی کانگرس نے کیپٹاگون ایکٹ منظور کیا جس میں حکومت سے بشار الاسد سے منسلک منشیات کی تیاری کے نیٹ ورک کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

واشنگٹن میں نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق کیپٹاگون کی تجارت سے شام نے 2021 میں پانچ ارب ڈالرز سے زیادہ کمائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی 2023 میں شام کو عرب لیگ کے مکمل رکن کے طور پر بحال کر دیا گیا۔

اس فیصلے سے 11 سالہ معطلی ختم ہوئی۔ عرب وزار خارجہ کے اس فیصلے کے جلد نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے جب شام نے عراق اور اردن کے ساتھ اپنی سرحد پر کیپٹاگون کی سمگلنگ کے تدارک کا اعلان کیا۔

دو ہفتے بعد شام میں کیپٹاگون تجارت کی سرکردہ شخصیت مرعی الرمثان جنوبی شام میں اپنے گھر پر فضائی حملے میں مارے گئے۔

ریسرچ اینڈ سٹڈیز یونٹ کے سربراہ طارق علی احمد نے کہا، ’کیپٹاگون پورے خطے میں وسیع پیمانے پر جانی جاتی ہے، بیرونی دنیا اب بھی صرف اس کی بدنامی اور بچوں اور خاندانوں کے لیے مسلسل خطرات سے دوچار ہے۔

’بطور صحافی، بیداری پیدا کرنا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے کی حقیقت کو بےنقاب کرنا ہمارا فرض ہے۔‘

سعودی عرب میں عرب نیوز کے علاقائی مینیجر محمد السلمی نے کہا: ’ملک کو منشیات کی سمگلنگ کی کارروائیوں کا سامنا ہے اور اس کے نوجوانوں کو نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں۔

’یہ جنگ کافی عرصہ پہلے شروع ہوئی تھی اور سعودی حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے پوری جانفشانی سے لڑ رہی ہے اور تمام صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے۔

’بڑی مقدار میں کیپٹاگون کی مسلسل ضبطی نہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، بلکہ یہ اہل حکام کی بے پناہ کوششوں کا بھی ثبوت ہے، جو سمگلروں اور ڈیلرز کا مسلسل سراغ لگا رہے ہیں اور انہیں پکڑ رہے ہیں۔‘

اس ڈرگ کے خلاف لڑائی کفی سینٹر ریاض جیسے ہسپتالوں میں بھی لڑی جا رہی ہے۔ یہ اس طرح کے مراکز ہیں جہاں مریض امید پا رہے ہیں اور جہاں کیپٹاگون کے خلاف جنگ جیتی جائے گی۔

نوٹ: یہ مکمل دستاویزی فلم عرب نیوز پر دیکھی جاسکتی ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین