’ذائقہ پوروں میں بسا‘: روایتی کھانوں کو نیا رنگ دینے والے شیف ذاکر چل بسے

ذاکر حسین کے بھائی کا کہنا ہے کہ ’ان کا اندازِ بیان، کھانے کی تیز اور مہارت سے تیاری، اور آسان زبان میں ترکیب سمجھانا انہیں دیگر شیفز سے ممتاز کرتا تھا۔‘

ذاکر حسین کے بھائی محمد رضا نے انڈُپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ذاکر طویل عرصے سے گردوں کے مرض میں مبتلا تھے۔‘ (شیف ذاکر حسین/ انسٹاگرام)

پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شیف محمد ذاکر حسین 21 اپریل کو 58 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

شیف ذاکر حسین اُن ابتدائی شیفز میں شامل تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن پر کھانا پکانے کو ایک فن کے طور پر متعارف کروایا اور نہ صرف روایتی کھانوں کو جدید انداز میں پیش کیا بلکہ بین الاقوامی ذائقوں کو بھی پاکستانی گھروں کا حصہ بنایا۔

ذاکر 16 فروری 1967 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالعزیز، برٹش ایئرویز اور قومی ایئر لائن میں بطور شیف خدمات انجام دے چکے تھے، جنہیں دیکھ کر ذاکر کے دل میں اس پیشے کا شوق پروان چڑھا۔

شیف ذاکر کے چھوٹے بھائی محمد رضا نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا ’بھائی ذاکرکا انتقال پیر کی شب رات 8 بجے ہوا۔ وہ طویل عرصے سے گردوں کے مرض میں مبتلا تھے اور امریکہ میں زیرِ علاج تھے۔

’ڈاکٹروں نے ایک ماہ قبل جواب دے دیا تھا، جس کے بعد وہ وطن واپس لوٹ آئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’عید سے قبل وہ اپنی اہلیہ اور شادی شدہ بیٹی کے ہمراہ پاکستان پہنچے، ان کی خوش اخلاقی کی مثال یہ ہے کہ اتنی شدید علالت کے باوجود انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو جمع کر کے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔‘

محمد رضا کے مطابق: ’شیف ذاکر کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جہاں کھانا پکانا محض پیشہ نہیں بلکہ روایت تھی، البتہ وہ خاندان کے وہ واحد فرد تھے جنہوں نے بیرونِ ملک جا کر اس فن میں تعلیم حاصل کی۔

’وہ اپنے محسنین کا ذکر ہمیشہ محبت سے کرتے، جن میں سلطانہ صدیقی اور اطہر وقار عظیم نمایاں نام ہیں۔‘

شیف ذاکر کے بھائی رضا نے بتایا کہ ’ذاکر ایک سادہ، بااخلاق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کےاندازِ گفتگو میں نرمی، لہجے میں اپنائیت اور کام میں مہارت نمایاں تھی۔ انہوں نے نہ صرف روایتی کھانوں کو نئی جہت دی بلکہ بین الاقوامی کھانوں کو بھی اپنی مہارت سے پاکستانی ذوق کے مطابق ڈھالا۔

’ان کے ٹی وی شوز نےلاکھوں گھروں میں نہ صرف ذائقہ بکھیرا بلکہ کھانا پکانے کا سلیقہ بھی سکھایا۔‘

بقول محمد رضا: ’وہ بچپن میں کھیلوں سے دور رہتے لیکن قیادت کا جذبہ رکھتے تھے۔ دوست اکثر ان سے مشورہ کرتے، ان کے دیگر بھائی بھی ہوٹل انڈسٹری کا حصہ تھے اور یہی چاہتے تھے کہ ذاکر بھی اسی شعبے کو اپنائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذاکر حسین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بے شمار ککنگ شوز کیے، جن میں ’ماسٹر شیف ذاکر‘ اور دیگر لائیو پروگرامز نےغیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔

رضا کا کہنا ہے ’ان کا اندازِ بیان، کھانے کی تیز اور مہارت سے تیاری، اور آسان زبان میں ترکیب سمجھانا انہیں دیگر شیفز سے ممتاز کرتا تھا۔ شیف ذاکر نے کئی کک بکس تحریر کیں، جن میں ہر طرح کے کھانوں کی ترکیب شامل تھی۔‘

انہوں نے نجی چینل پر "Zakir’s Kitchen" کے نام سے ایک شو کی میزبانی کی۔ اس پروگرام کے پروڈیوسر ذوہیب عالم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’میں نے 2015 سے 2021 تک ذاکر کے ساتھ کام کیا، ان کے ساتھ گزارا ہر لمحہ قیمتی تھا۔ ان کی خوبیوں میں وقت کی پابندی اور کام سے محبت نمایاں تھی۔

’وہ کبھی بیماری کو شو میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے تھے۔ ذاکر کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ وہ براہِ راست نشریات میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھانا تیار کرنے جیسے مظاہرے بھی کر چکے ہیں۔ انہیں اپنی بنائی ہوئی ڈش چکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تھی، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ذائقہ میری انگلیوں کی پوروں میں بسا ہے۔‘

ذوہیب عالم کے مطابق: ’ذاکر اکثر کہا کرتے کہ پکوان کی ترکیب ایسی ہو کہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص اسے باآسانی بنا سکے۔ انہوں نے چائنیز، کانٹینینٹل، دیسی ہر قسم کے کھانوں کو اپنی آسان ترکیبوں سے مقبول بنایا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شیف ذاکر کی زندگی خدمت، ہنر اور علم کا حسین امتزاج تھی۔ آج وہ ہم میں نہیں، لیکن ان کے دیے ہوئے ذائقے، سکھائے ہوئے سبق اور ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔

’وہ چلے گئے، مگر ان کا ذوق، ان کا انداز،ان کی مہارت آج بھی ہر پاکستانی کچن میں سانس لے رہی ہے۔‘

ان کے پسماندگان میں اہلیہ، تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ ذاکر حسین کی نمازِ جنازہ منگل کے روز بعد نمازِ عصرجامعہ رشیدیہ، ملیر سعود آباد میں ادا کی جائے گی، جب کہ تدفین سعود آباد قبرستان میں عمل میں آئے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین