دوسری شادی کا ذکر کرنے والے مرد

بٹا ہوا باپ اولاد کو کیسا لگتا ہے، ہفتے میں تین دن گھر آنے والے شوہر اور پورا ہفتہ گھر میں سیل فون پہ مصروف رہنے والے شوہر میں کیا فرق ہوتا ہے، ان موضوعات پہ بات ہونی چاہیے۔

14 ستمبر، 2024 کو لی گئی اس تصویر میں راولپنڈی کے میرج بیورو سے منسلک افراد ایک سالانہ اجلاس کے دوران سیلفی لے رہے ہیں (اے ایف پی)

ہمارے ایک عزیز جب کسی ایسی محفل میں بیٹھتے ہیں جہاں ان کو ایک سے دوسری بار کبابوں کی پلیٹ پیش کی جاتی ہے اور ان سے موسم کے علاوہ کسی موضوع پہ بات کی جاتی ہے تو وہ فوراً دوسری شادی کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں۔

اس ذکر کے چھڑتے ہی محفل میں بیٹھے نکلے، نیم ٹکلے، توندیل، وقت کے مارے اصحاب اپنے گرتے جھڑتے دانتوں کو سنبھالتے نہ صرف اپنی رائے دیتے ہیں بلکہ مارے حسرت و شوق کے بعض تو آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔

یہ منظر بارہا نظروں سے گزرا، صرف یہ ہی عزیز نہیں، اکثر افراد کو دیکھا کہ جہاں ذرا بے تکلفی کا ماحول ملا، لگے دوسری شادی کے بارے میں غل غپاڑہ کرنے۔

ابھی کچھ روز پہلے ایک نجی چینل پہ ایک ڈراما دکھایا گیا جس میں دوسری شادی کو ایک بھیانک شے بنا کے دکھانے کی کوشش میں ایک لذیذ جرم بنا دیا گیا جس کا خمیازہ پہلی اور دوسری دونوں بیویوں نے بھگتا۔

شوہر معصوم پلکیں جھپکاتے ایک بیوی سے دوسری بیوی کے درمیان گھومتے اور اپنی آنکھوں کا رنگ پوچھتے رہے۔

دوسری شادی ہماری سماجی زندگیوں کا اہم ترین موضوع ہے۔ خاص کر جب اسلام میں بیک وقت چار شادیوں کی اجازت بھی ہے تو اس صورت میں ہمارے ہاں مردوں کو یہ بات کر کے بہت ہی لطف آتا ہے۔

اس معاملے میں ایسا ہے کہ ہمارے ہاں دو طرح کے مرد پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ، جنہوں نے دوسری شادی کرنی ہوتی ہے اور دوسرے وہ جنہوں نے دوسری شادی نہیں کرنی ہوتی۔

جنہوں نے دوسری شادی کرنی ہوتی ہے یہ پہلی شادی کے چھ ماہ بعد بھی ہو سکتی ہے اور 30 سال بعد بھی لیکن ایسا ہوتا ضرور ہے۔

یہ مرد کبھی کبھار تیسری شادی بھی کر لیتے ہیں اور ضروری نہیں ہوتا کہ یہ اپنی بیویوں کے لیے ولن ہوں۔

ان مردوں کی پہلی بیویاں چاہے سونے کی بنی ہوں، اطاعت اور وفا کی پتلیاں ہوں، سلیقہ شعار، تعلیم یافتہ، مہذب ، برسرِ روزگار، صاحب جائیداد کچھ بھی ہوں، ان کے شوہر دوسری شادی کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہ شادی کرنا ہوتی ہے۔

ایسے موقعوں پہ خواتین و حضرات کی ایک بڑی تعداد دوسری بیوی کو ’ویمپ‘ بنا لیتی ہے کہ اس کٹنی کی وجہ سے بھولے بھالے سیاں نے دوسری شادی کر لی۔ منے میاں کو پھنسا لیا پیسے کی خاطر۔

بات یہ ہے کہ نکاح تو سیدھا سیدھا ایک معاہدہ ہے۔ ایک عورت کی تمام معاشی ضروریات اٹھانے کے عہد نامے پہ دستخط کیے جاتے ہیں اور حق مہر بھی ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ایک واضح معاشی معاہدہ ہے۔

مسئلہ خراب وہاں ہوتا ہے جہاں کم وسائل میں ایسا ہی ایک معاہدہ کسی اور شخص سے کیا جاتا ہے تو پہلے ہی معاشی و سماجی نا انصافی کا شکار عورتیں مزید خوف زدہ ہو کر اس دوسری عورت کو چڑیل قرار دے دیتی ہیں جو ان کا گھر توڑنے کا باعث بنیں۔

مرد یہاں بھی بچ نکلتے ہیں۔ قصوروار دوسری عورت ہی ٹھہرتی ہے اور کچھ معاملات میں ایسا ہوتا بھی ہے۔ پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنا عیب ہے؟ بے وفائی یا جرم یا پھر مسلم مرد کا پیدائشی حق؟

اس موضوع پہ بات کرنا ایسا ہی ہو چکا ہے جیسا کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا۔ دوسری شادی کے ذکر کو ہٹا بھی دیں تو کیا بعض مرد اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری عورت کے ساتھ تعلقات نہیں بناتے؟

یہاں بھی وہی بات کہ دو طرح کے مرد ہوتے ہیں۔ ایک ہوتے ہیں جو بہرصورت بیوی کے ہوتے ہوئے دوسرا تعلق بناتے ہیں اور دوسرے نہیں بناتے۔

ہم نے خیر سے نہ بنانے والوں کو بھی دیکھا، گو یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر کم ہے۔ بات دوسری شادی سے دوسرے تعلق تک آ گئی۔

دوسرا تعلق کب بنتا ہے؟ کیا اس کی وجہ پہلے تعلق کا کمزور ہونا ہوتا ہے؟ تعلق کی مضبوطی اور کمزوری کو کیسے جانچا جائے؟

دوسری طرح کے مرد وہ ہوتے ہیں جو ساری عمر ایک ہی شادی نبھاتے ہیں۔ یہ مرد جنہیں عرف عام میں ’زن مرید‘ یا شریف آدمی کہہ کے چھیڑا جاتا ہے ان میں سے بھی اکثریت کی زندگی میں دوسری عورت بلکہ عورتیں موجود ہوتی ہیں۔

یہ لوگ صرف دوسری شادی کے معاہدے میں نہیں پڑنا چاہتے۔ خاندان کیا ہونا چاہیے؟ سگے سوتیلے رشتے آگے چل کے اولاد کی شخصیت پہ کیا اثر ڈالتے ہیں؟

بٹا ہوا باپ اولاد کو کیسا لگتا ہے، ہفتے میں تین دن گھر آنے والے شوہر اور پورا ہفتہ گھر میں سیل فون پہ مصروف رہنے والے شوہر میں کیا فرق ہوتا ہے، ان موضوعات پہ بات ہونی چاہیے۔

دوسری شادی کے حق میں دلائل بے شمار ہیں اور تمام دلائل بودے بھی نہیں، لیکن سب کے سب عام طور سے مرد کے نکتہ نظر ہی کو بیان کرتے ہیں۔

فرض کرتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی شق کو ہٹا دیا جائے تو شادی کا ادارہ سدھر جائے گا؟

اس شق کو ہٹا کر اور مرد عورت دونوں کے نکتہ نظر سے دیکھیں کیا ہر شادی کبھی نہ ختم ہونے والا رشتہ ہے؟ شوہر اور بیوی کیا ساری عمر ایک دوسرے کے ساتھ ایک ناپسندیدہ زندگی بھی گزارنے کے پابند ہیں؟

ایک عورت کا شوہر مر جاتا ہے یا طلاق ہو جاتی ہے تو اس کی دوسری شادی لوگوں کے لیے اچانک شدید دلچسپی کا موضوع کیوں بن جاتی ہے؟

جوان بچوں کی موجودگی میں اگر ماں یا باپ جو کسی وجہ سے اکیلے ہوں، دوسری شادی کرنے پہ طنز اور عامیانہ جگتوں کا نشانہ کیوں بنتے ہیں؟

بری شادیوں کو نبھاتے ہوئے اپنی زندگی برباد کرنے والے لوگ ہمارے ہیرو کیوں ہوتے ہیں اور اپنی زندگی خوش اور مطمئن جینے کی کوشش کرنے والے ولن کس لیے بن جاتے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شادی کا ادارہ پوری دنیا ہی میں شدید مسائل کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ دوسرا تعلق ہے۔ یہ دوسرا تعلق سماج کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

یہ تو سنجیدہ باتیں تھیں، ذکر ہمارے عزیز جیسے صاحبوں کا چلا تھا جو بے وجہ ہی دوسری شادی کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ یہ مردوں کی ایک تیسری اور شدید زہریلی قسم ہے۔

یہ بیچارے نہ دوسری شادی کرتے ہیں اور نہ ہی پہلی بیوی کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں۔ ان بے چاروں کو نہ باہر کوئی عورت منہ لگاتی ہے اور اکثر ان کی شادی اپنی پھوپھو کی بیٹی سے ہی ہوتی ہے۔

شادیوں کا موسم ہے، اب کسی شادی پہ جانا ہو تو غور کیجیے گا جس میز کے گرد لوگ سب سے زیادہ کرسیاں گھسیٹ کر بیٹھے ہوں گے وہاں ایک ایسے ہی صاحب بیٹھے بلند آواز میں دوسری شادی کا ذکر کر رہے ہوں گے اور ’وائف جوکس‘ سنا رہے ہوں گے۔

آس پاس ان کے بیوی بچے شرمندہ شرمندہ سے پھر رہے ہوں گے۔ اگر ایسے لوگوں کو پہچاننے میں ذرا بھی دقت ہو رہی ہو تو ایک موٹی سی پہچان یاد رکھیں، یہ اپنی بیوی کو ’ہوم منسٹری‘، ’بیگم‘ یا ایسے ہی کسی نام سے پکارتے ہیں اور اپنے بچوں کو ’اوئے باندر کے بچے‘ کہتے ہیں۔

ان کے لطیفے سنیے، حسرت آمیز گفتگو سنیے اور سوچیے کہ اگر یہ ایک شادی کر کے ہی اتنے پریشان ہیں تو دوسری شادی کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟

تعلق صرف اس وقت تک تعلق ہوتا ہے جب تک اس میں خلوص باقی ہو، معاشی مجبوریوں کے لیے کیے جانے والے سودے تعلق نہیں ہوتے معاہدے ہوتے ہیں جن میں محبت کا لوچ ڈھونڈنا کار دارد ہے۔

شادی کے ادارے کو اگر بچانا مقصود ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ یہ اصلاح معاشرے کے اندر سے ہوتی ہے۔

ذہن کھولیے اور سوچیے، انسانی فطرت کے قریب کیا ہے؟ عورت اور مرد دونوں کے نقطہ نظر سے دیکھیے۔ تصویر زیادہ واضح نظر آئے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ