یہ ستمبر 2007 کے دن تھے۔ ایک عامل صحافی کے طور پر خبروں کی تلاش میں سرگرداں پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداریوں میں مارے مارے پھر رہے تھے۔
اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین کسی مفاہمت اور عالمی کردار کا چرچا تھا۔ مرحوم شیر افگن خان نیازی اُس وقت جنرل مشرف کی کابینہ میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور تھے۔
ڈاکٹر شیر افگن نیازی جیسی شخصیات کم ہی دیکھی ہوں گی۔ یوں تومحترمہ سے کچھ اختلافات کے باعث پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا حصہ بن کر میر ظفراللہ خان جمالی کی کابینہ کا حصہ بن چکے تھے مگر انتہائی وضع دار، سادہ اور آئین و قانون پر عبور رکھنے والے پارلیمنٹرین تھے۔
بہر حال راہداری میں چلتے ہوئے اور کیفے ٹیریا کے غیر سیاسی مگر سیاسی ماحول میں ڈاکٹر صاحب کو ذرا سا غصہ دلا کر خبر نکلوا لینا مشکل بات نہ تھی۔
جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مذاکرات کا انجام ایک ’تاریخی مفاہمت‘ سے ہو رہا تھا جس کے بارے میں شیخ رشید صاحب مسلسل خبریں لیک کر رہے تھے۔
مفاہمتی آرڈیننس کی خبریں آ رہی تھیں مگر دستاویزات تک پہنچنا مشکل تھا۔ اپنے تمام صحافتی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اے آر وائی نیوز کے لیے اس مفاہمتی آرڈیننس کی خبر بریک کی جس کے مطابق 1988 سے 1999 تک کے فوجداری مقدمات بہ یک جنبش قلم ختم کر دیے گئے تھے جن میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مقدمات بھی شامل تھے اور آصف علی زرداری اس وقت تک کئی سال جیل بھگت چکے تھے۔
بہر حال وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ صاحب نے ہمارے پروگرام میں اس ’مفاہمت‘ کی تصدیق کی اور یوں یہ تاریخی مفاہمتی آرڈیننس دو متحارب قوتوں کے ’مذاکرات‘ کے باعث اکتوبر 2007 میں طے پایا جن میں سے ایک فریق طاقتور فوج کا سربراہ اور صدر تھا جو سابق وزرائے اعظم کو اپنے انٹرویوز میں کبھی وطن واپس نہ آنے دیے جانے اور اُن کی سیاست ختم کیے جانے کا اعلان بھی کرتا تھا۔
اس مفاہمتی آرڈیننس میں عالمی طاقتوں کا مبینہ کردار اب ڈھکا چھپا نہیں اور نہ ہی اس سے قبل نواز شریف کی ملک سے جلا وطنی میں عالمی رہنماؤں اور طاقتوں کا کردار کسی سے مخفی ہے مگر سیاست میز پر بیٹھنے اور اپنی پٹاری سے آہستہ آہستہ ’ممکنات‘ کے لیے راستہ بنانے کا نام ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے چنداں آسان نہ تھا کہ ملک واپسی کاراستہ ہموار کیا جائے۔
اس سے قبل میثاق جمہوریت کے لیے بے نظیر بھٹو جدہ نواز شریف سے ملاقات کے لیے گئیں اور اختلافات ختم کیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ 2006 میں میثاق جمہوریت کی تاریخی دستاویز اسی مفاہمت کا نتیجہ تھا جس کا سہرا بے نظیر بھٹو کے سر جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بغیر گھیراؤ جلاؤ ایک ایسی دستاویز جو بظاہر دو سیاسی رہنماؤں کے درمیان تھی، دونوں رہنما جلا وطن تھے، ملک میں موجود قیادت یا تو گرفتار تھی یا پھر غیر متحرک۔
جمہوریت بحالی کی تحریک نوابزادہ نصراللہ خان کی وفات کے بعد قیادت سے محروم تھی مگر اس کے باوجود میثاق جمہوریت نے وہ دباؤ ڈالا جس کا نتیجہ ’مخاصمت‘ کے بجائے مفاہمت پر ہوا۔
این آر او کے طریقہ کار اور کئی ایک مجرموں کی ’غیر قانونی‘ رہائی کے باوجود اسے سیاست کی جیت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ این آر او جنرل مشرف نے اپنی بقا کے لیے دیا نہیں بلکہ لیا تھا۔
موجودہ سیاسی محاذ آرائی کے دور میں تحریک انصاف مفاہمت کی جانب بڑھنے کی بجائے مسلسل سیاسی حریفوں سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہے۔
تحریک انصاف جیسی بڑی جماعت بارہا مقتدرہ سے براہ راست بات چیت کو ترجیح دے چکی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ’موقع اور دستور‘ کے مطابق حکومت کو یہ ٹاسک سونپ دیتی ہے۔
بدقسمتی سے اس پورے قضیے کے درمیان نو مئی کا معاملہ آ کھڑا ہوا ہے جو بہرحال فوج بھولنے کو تیار نہیں اور بھولنے کی صورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ روایت پڑ جانے کا خدشہ موجود ہے۔
دوسری جانب عمران خان نو مئی ’بھولنے‘ اور ’معافی‘ مانگنے کا عذر کیسے ڈھونڈیں کہ یہ ’یوٹرن‘ اُن کی سیاست کے خاتمے کا سبب ہو سکتا ہے۔ یوں مذاکرات کی ہانڈی میں لو اور دو کا مصالحہ تاحال موجود نہیں۔
پہلے این آر او کے وقت سوشل میڈیا موجود نہ تھا مگر اب اس کا بھوت ہر جگہ ناچ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ’قیدی‘ اس قید سے چاہیں بھی تو رہائی نہیں پا سکتے۔
پس پردہ مذاکرات ’اعتماد سازی‘ کرتے ہیں توتحریک انصاف کے یوٹیوبرز سر عام بھانت بھانت کی جھوٹی سچی مہم چلاتے ہیں۔ سانچ پر آنچ کا تڑکا لگا کر ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ اعتماد سازی راکھ ہو جاتی ہے۔
ایک گھر کے سیاسی عامل دوسرے گھر کے سیاسی موکلوں پر بھاری آجاتے ہیں اور یوں ساری گیم دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔
اس وقت اگر عملی طور پر تحریک انصاف میں کوئی سیاست کو سمجھ رہا ہے تو وہ بُشریٰ بی بی ہیں تاہم اُن کے ہاتھ وہ یوٹیوبرز نہیں آ رہے جو اس وقت کہیں اور سے قابو ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کو فیصلہ کرنا ہے سوشل میڈیا کے ذریعے پارٹی چلانی ہے یا پارٹی نے سوشل میڈیا کو چلانا ہے۔ خان صاحب کو پارٹی کے اندر سیاست کرنی ہے یا قومی سیاست میں حصہ لینا ہے۔
جماعت کے دو متحارب گروپوں کے ذریعے دباؤ بڑھانا ہے یا مفاہمت کا رستہ اختیار کرنا ہے۔ بیرونی سہاروں کی طرف دیکھنا ہے یا اندرونی عوامی پذیرائی کو طاقت بنانا ہے۔
یاد رہے عالمی قوتیں محض راستے کے پتھر ہٹا سکتی ہیں چلنا آپ نے خود ہے اور اس کے لیے راستہ بھی اپنا ہی بنانا ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔