آپ سوچیں گے گرومنگ گینگز کے متاثرین پہلے ہی بہت کچھ برداشت کر چکے ہیں اور اب انہیں دائیں بازو کے اسلاموفوبک ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی کھیل کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
لیکن ایک بار پھر ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ جب یہ معاملہ خبروں میں آتا ہے تو اسلام مخالف جذبات سیاسی گفتگو پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ متاثرین کے لیے انصاف اور اس قسم کے واقعات کو روکنے کی کوششیں سیاست میں پوائنٹس سکورنگ کے لیے پس پشت ڈال دی گئی ہیں۔
میں گنتی بھول چکی ہوں کہ اس ہفتے کتنی خبریں اور سوشل میڈیا پوسٹس دیکھی ہیں جن میں ’مسلم گینگز‘ کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ غلط تصور پیش کرتی ہیں کہ برطانیہ کے مختلف شہروں میں 2000 کی دہائی کے اوائل میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا منظم استحصال کسی نہ کسی طرح ایک ایسے مذہب سے جڑا ہے جس کی دنیا بھر میں ایک ارب لوگ پُرامن طریقے سے پیروی کرتے ہیں۔
ایلون مسک نے اسلام مخالف جذبات کی حالیہ لہر کو بھڑکایا ہے اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر گرومنگ گینگز کو مسلمانوں کا مسئلہ، ناکام کثیر الثقافت کی علامت اور لیبر سیاست دانوں جیسے کیئر سٹارمر اور جیس فلپس پر ’ریپ جینوسائیڈ‘ کی حمایت کے الزامات لگا کر انہیں ’برطانیہ کے ریپ‘ کے سہولت کار قرار دیا ہے۔
مسک کی استعمال کی گئی زبان کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ ’برطانیہ کے ریپ‘ کی بات کرنا اس خیال کو مزید پختہ کرتا ہے کہ پُرتشدد، غیراخلاقی غیرملکی (یعنی مسلمان) برطانیہ میں آکر مقامی باشندوں پر حملہ کر رہے ہیں۔
یہ تمام مسلمانوں اور تارکین وطن کو برطانیہ کا دشمن ظاہر کرتا ہے، وہ بھی اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ مجھ جیسے مسلمان صدیوں سے برطانیہ کے معاشرتی ڈھانچے کا حصہ رہے ہیں۔
اگر آپ مسک کے ماضی کو دیکھیں، جہاں انہوں نے دائیں بازو کے، پناہ گزین اور اسلام مخالف نظریات کو فروغ دیا، جیسے کہ گذشتہ سال انہوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ ساؤتھ پورٹ کے حملہ آور مسلمان تھے (جس کی وجہ سے فسادات اور پناہ گزینوں کے ہوٹلوں کو جلانے کے ساتھ ساتھ مساجد پر حملے ہوئے) تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ معاملہ گرومنگ کے متاثرین کے لیے انصاف دلانے سے زیادہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
یقیناً ہم نے اس سے پہلے بھی دیکھا کہ گرومنگ گینگز کے بارے میں یہ غلط فہمی ایک حقیقت کے طور پر پیش کی گئی ہے۔
مثال کے طور پر جب سابق وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے دعویٰ کیا تھا کہ برطانیہ میں بدسلوکی کرنے والے ’تقریباً تمام‘ افراد پاکستانی نژاد مرد ہیں۔
جی ہاں، ان جرائم میں کچھ پاکستانی نژاد مرد ملوث تھے، لیکن ’تقریباً تمام‘ کہنا غلط ہے۔
درحقیقت 2020 میں حکومت کی ایک رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زیادہ تر بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث گینگز سفید فام مردوں پر مشتمل تھے۔
رپورٹس میں کہا گیا کہ پولیس نے اس وقت ان گینگز کی تحقیقات میں زیادہ احتیاط سے کام لیا کیونکہ انہیں کمیونٹی میں کشیدگی یا نسل پرستی کے الزامات کا ڈر تھا۔
یہ بات بھی بار بار کہی جاتی ہے کہ سیاسی درستگی اور ’غیرملکیوں‘ کے جذبات کی فکر مقامی برطانویوں کی حفاظت سے زیادہ اہم سمجھی گئی۔
پچھلے ہفتے شیڈو جسٹس سیکریٹری رابرٹ جینرک نے کہا کہ برطانیہ کو ان افراد کی امیگریشن محدود کرنی چاہیے جو ’بیگانی ثقافتوں‘ سے تعلق رکھتے ہیں اور خواتین کے بارے میں قدیم تصورات‘ رکھتے ہیں اور انہوں نے اس کے ثبوت کے طور پر گرومنگ سکینڈل کی مثال دی۔
لیکن یہ صرف وسیع پیمانے پر نظر آنے والے اسلاموفوبیا کے بارے میں نہیں جو ہر بار گرومنگ گینگز کی خبریں آنے پر دوبارہ دہرائی جاتی ہے بلکہ اس کا اثر ان مسلمانوں کی روزمرہ پر پڑتا ہے جو یہاں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک سیکنڈری سکول ٹیچر کی حیثیت سے میں نے بچوں کے جنسی استحصال کی شناخت اور روک تھام کے بارے میں باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے۔
اور جب آپ دیکھتے ہیں کہ یہ جرائم کسی نوجوان کی زندگی پر کتنے تباہ کن اثرات ڈال سکتے ہیں، تو یہ ناممکن ہے کہ آپ یہ محسوس نہ کریں کہ ان جرائم کے متاثرین کیسے اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
پہلے وہ ان لوگوں کے ذریعے شکار بنے جنہیں انہیں محفوظ رکھنا چاہیے تھا لیکن اب وہ دوسری بار ایک ایسے نظام کے ذریعے شکار ہو رہے ہیں جو اتنا منتشر ہے کہ یہ ان لوگوں کے تکلیفوں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
جو لوگ اس سکینڈل کے بارے میں سب سے زیادہ آواز بلند کر رہے ہیں اصل میں وہ متاثرین کی آواز کو دبا رہے ہیں اور مسلم مخالف مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔
وہ صرف کمزور نوجوان لڑکیوں کی مایوسی کو عوام میں نفرت اور اختلاف کے بیج بونے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
یہ نہ صرف ان لوگوں کے درد کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتا جو اس سے گزر چکے ہیں، بلکہ یہ مثبت تبدیلی کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر تعلیم بریجٹ فلپسن نے کھل کر کہا ہے کہ بچوں کی فلاح و بہبود اور سکولز بل کو اس میں شامل تجاویز کے باوجود دائیں بازو کے عوامی تحقیقات کے مطالبے کی وجہ سے تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ تجاویز، جیسے ہر بچے کے لیے ایک منفرد شناختی نمبر، حکام کو بہتر طریقے سے کام کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں تاکہ ان لوگوں کی حفاظت کی جا سکے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
یہ واضح ہے کہ ہماری قومی سیاست میں اسلاموفوبیا کی یہ لہر ہمارے ملک کے سب سے زیادہ کمزور بچوں کے لیے براہِ راست خطرہ بن رہی ہے۔
نفرت اور تقسیم کرنے والی تقریروں میں پڑنے کی بجائے اس وقت ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے نظام میں حقیقی تبدیلی ہے۔
ایک استاد کے طور پر میں روزانہ مشاہدہ کرتی ہوں کہ کس طرح سرکاری خدمات کا ناکارہ نظام سب سے زیادہ کمزور بچوں کو ناکام کرتا ہے اور اس ناکامی کے سارہ شریف جیسے خوف ناک نتائج بھی ہیں جہاں والدین نے اپنی بچی کو سکول سے نکال کر اس پر ہونے والے وحشیانہ تشدد کو چھپایا حالانکہ اس کے اساتذہ نے بچی کے جسم پر زخموں کی رپورٹ کی تھی اور سوشل سروسز سارہ کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے خاندان کو جانتی تھی۔
جو لوگ اس گرومنگ سکینڈل کو مسلمانوں کو بدنام کرنے اور دوسرے کے لیے نقصان دہ اپنے ایجنڈے کو بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ان متاثرین کی فکر نہیں کرتے جو اس عوامی ناکامی کا شکار ہیں۔
اگر وہ واقعی متاثرین کی پرواہ کرتے تو وہ حقیقی تبدیلی کے لیے مطالبہ کر رہے ہوتے، حکومت اور متعلقہ اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ تعاون اور رابطے میں رہنا چاہیے، تاکہ وہ کمزور لوگوں کو بہتر طور پر تحفظ فراہم کر سکیں۔ بجائے اس کے کہ مختلف گروپوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکٹھا کر کے مزید تقسیم پیدا کی جائے۔
© The Independent